مونچھیں ہوں، تو نتھو لال جی جیسی ورنہ نا ہوں

قبلہ ڈاکٹر سلطان روم صاحب نے کچھ محسوس اور کچھ غیر محسوس انداز سے صحافتی میدان میں ہماری تربیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ جیسے کہ ایک مرتبہ کسی محترم کی کتاب پر تبصرہ ’’فرمانے‘‘ کے بعد انہوں نے وہ کتاب قیمتاً خریدی اور پڑھنے کے بعد مجھے نہایت شفیق انداز سے مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ ’’ہمیں کتاب کی طرف آپ کے تبصرہ نے راغب کیا، مگر کتاب میں وہ جان نہیں پائی جس کا آپ نے اپنی تحریر میں دعویٰ کیا ہے۔‘‘ اس وقت میں شرم سے پانی پانی ہوگیا اور انہیں اتنا بھی بتا نہیں پایا کہ تبصرہ میں نے لکھا نہیں بلکہ مجھ سے لکھوایا گیا تھا۔ اس کے بعد بخدا کبھی بلاضرورت تبصرہ ’’فرمانے‘‘ کی ہمت نہیں ہوئی۔
ابھی پچھلے دنوں جیسے ہی ہمایون مسعود صاحب کی کتاب استادِ محترم فضل ربی راہیؔ نے تحفتاً عنایت کی اور میں نے اس کا مطالعہ کیا تو میری ’’رگِ تبصرہ‘‘ پھڑک اٹھی۔ شائد اس لیے کہ ہمایون صاحب میرے لیے تین حوالوں سے معتبر ہیں۔ پہلا حوالہ، آپ انگریزی ادب کے ایک اچھے عالم ہیں۔ آپ جب انگریزی بولتے ہیں، تو حضرتِ فرازؔ کا یہ شعر ذہن میں گویا کوندے کی طرح لپکتا ہے کہ
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
یا امیتابھ بچن کے ’’شرابی‘‘ فلم کا وہ شہرہ آفاق مکالمہ ’’مونچھیں ہوں، تو نتھو لال جی جیسی ورنہ نا ہوں۔‘‘ اور میں کہتا ہوں کہ ’’سپیکنگ ہو، تو ہمایون جی جیسی ورنہ نا ہو۔‘‘
دوسرا حوالہ، آپ ریاض مسعود صاحب کے بڑے بھائی ہیں، جنہوں نے وقتاً فوقتاً اردو املا، فارسی تراکیب اور الفاظ کے بے جا استعمال پر میری گوشمالی کی۔ آپ کی راہنمائی میں کمی نہیں ہوگی، ہاں یہ ضرور ہے کہ پشتو کہاوت کے مصداق مَیں ’’غوڑ منگے‘‘ ہوں۔ اس لیے وہ تمام تر خامیاں اب بھی مجھ میں پائی جاتی ہیں۔ تیسرا حوالہ، ہمایون مسعود صاحب بھی مجھے دیگر علما کی طرح سوات ٹی ہاؤس (شعیب سنز) میں ملے ہیں۔
آج کی نشست ہمایون فراسؔ صاحب کے پشتو افسانوں کے مجموعہ ’’رشتی‘‘ (رشتے) پر تاثرات رقم کرنے کے حوالہ سے مختص ہے۔ مذکورہ کتاب میں کل چھے افسانے ہیں۔ کچھ طویل ہیں اور کچھ مختصر۔ طویل واقعی طویل ہیں، مگر مختصر اتنے بھی مختصر نہیں۔

"رشتی” کا ٹائٹل (فوٹو: بہ شکریہ شعیب سنز پبلشرز سوات)

کتاب کا مختصر ترین افسانہ ’’رشتی‘‘ ہے، جو تقریباً دس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس طرح طویل ترین ’’لکی مین‘‘ (Lucky Man) ہے جو تقریباً 47 صفحات پر مشتمل ہے۔ میری اپنی زندگی چوں کہ محرومیوں سے عبارت ہے، شائد اس لیے مجھے کتاب میں دیگر افسانوں کے مقابلہ میں ’’بو‘‘ بے حد بھایا۔ میرے ناقص علم کے مطابق ’’بو‘‘ کے لیے اردو میں متبادل لفظ ’’بھوت‘‘ مستعمل ہے۔ اکثر پختون معاشرہ میں مائیں یا گھر کی دیگر ناخواندہ خواتین بچوں کو ڈرانے کے لیے اس لفظ کا سہارا لیتی ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ، میری ماں بچپن میں ایسا ہی ایک ’’بو‘‘ میرے لاشعور میں بھی بٹھا چکی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مَیں آج تک اس ’’بو‘‘ سے پیچھا نہیں چھڑا پایا۔ ممتاز مفتی (مرحوم) بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تلاش‘‘ میں ہمایون مسعود صاحب کے اسی ’’بو‘‘ کا ذکر اچھوتے انداز میں کر چکے ہیں۔
دوسرا افسانہ جو مجھے اچھا لگا، وہ بھی مختصر ہے۔ ’’رشتی‘‘ میں ہمایون صاحب گویا میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ افسانہ کے آخر میں ہمایون صاحب نے تھوڑی سی جلد بازی سے کام لیا ہے۔ باقی فنی حوالہ سے مجھے اس میں کوئی کمی دکھائی نہیں دی۔ افسانہ کا آخری صفحہ پڑھتے ہوئے میری آنکھوں میں پانی تیرنے لگا اور بے روزگاری کا وہ دور یاد آیا، جب ایک وقت کی روٹی کے لیے درجن بھر طعنے سننے کو ملتے تھے۔
’’ترھہ گر‘‘ (دہشت گرد) میں تو تقریباً تمام اہلِ سوات کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا گیا ہے۔ اس حوالہ سے کتاب پر اپنے تاثرات میں ایڈورڈز کالج پشاور کے سمیع الدین ارمانؔ پشتو میں رقمطراز ہیں: ’’دا پہ پختنی سیمی د جوڑ ناتار یوہ سفاکہ، بربنڈہ اور ریختونی گواہی دہ۔‘‘ جب کہ میں کہتا ہوں کہ ’’ترھہ گر‘‘ پڑھ کر ہماری آنے والی نسلیں کم از کم یہ نہیں سمجھیں گی کہ ہمارے آبا و اجداد دہشت گرد تھے۔ خدا کرے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو یہاں پر اپنی ’’قربانیوں‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کا ’’کاروبار‘‘ بھی نظر آئے۔ قبلہ ڈاکٹر سلطان روم جیسا ثقہ مؤرخ جب یہاں ہونے والی ’’قربانیوں‘‘ کا ذکر کرے گا، تو مجھے امید ہے کہ وہ اُس ’’کاروبار‘‘ کا ذکر بھی کرے گا، جو یہاں خون کی ہولی کھیل کر کیا گیا۔ کس نے کتنی قربانیاں دیں اور کون کتنا کما گیا؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
’’پورٹیبل فریج‘‘ کے بارے میں مشر نیاز احمد خان کے تاثرات ’’کوٹ‘‘ کرنے کے لائق ہیں۔ بقول ان کے ’’بچپن میں جس طرح ہم چھٹی کے دن کسی ہندی فلم کا لطف اٹھایا کرتے تھے، ٹھیک اُسی طرح ایک عرصہ بعد پورٹیبل فریج کو پڑھ کر اُٹھایا۔‘‘ یہ ایک طویل افسانہ ہے جو تقریباً اکتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر قدم پر قاری متجسس رہتا ہے کہ آنے والا اقتباس کون سا رُخ اختیار کرتا ہے۔ سمیع الدین ارمانؔ صاحب اپنے تاثرات میں پورٹیبل فریج کے حوالہ سے رقمطراز ہیں کہ ’’افسانہ کو پڑھنے کے بعد یہ باآسانی پتا چل جاتا ہے کہ لکھاری نفسیات کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ کلاسک میتھالوجی، فرانسیسی ادب اور انگریزی کا ذخیرہ بھی کھنگال چکے ہیں۔‘‘

"رشتی” کا مصنف ہمایون مسعود۔ (فوٹو: بہ شکریہ شعیب سنز پبلشرز سوات)

نشست کے آخر میں کیوں نہ ہمایون مسعود صاحب کی زبان پر قدرت کے حوالہ سے بات کی جائے۔ انگریزی میں تو آپ اپنا سکہ بٹھا ہی چکے ہیں، کیوں نہ آپ کی پشتو پر ایک سر سری نظر ڈال لی جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ’’رشتی‘‘ میں ایسے ایسے الفاظ، محاورے، مرکبات اور مقولے استعمال میں لائے گئے ہیں، جن میں سے بیشتر نئی نسل کے لیے ناآشنا ہوں گے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ’’ذرے ذرے او پوٹی پوٹی، خوا نہ سڑیدل، د سبا سترگہ ختلی وہ، ناتاری غڑمبا، ژرندہ گڑے، نارینہ خزینہ اولاد، کاواک دڑد، د تروکی بوٹے، کوری، غنم رنگے، ماروڑنگ، د خوڑگئی ژیٔ، د سپق فاصلہ، د خولی خوند د گیڈی سوے، د زڑوکو ڈک صندوق، سپک دستہ، د خپلی برخے پسانڑے، قورت کانڑے، اینگیندے اور اس قبیل کے دیگر روایتی الفاظ، محاورے اور مقولے ’’رشتی‘‘ کی شان بڑھاتے ہیں۔ مَیں یہاں امیتابھ بچن کا مکالمہ ایک بار پھر ترمیم کے ساتھ مستعار لوں گا کہ ’’افسانہ ہو، تو ہمایون جی جیسا ورنہ نا ہو۔‘‘
شعیب سنز پبلشرز نے ’’رشتی‘‘ کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ مجموعہ سوات کے تمام اچھے بک سٹالز اور کتب فروشوں سے طلب کیا جاسکتا ہے۔

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔