گندھارا تہذیب

قدیم زمانے میں وادئی سوات مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذہبوں کی آماجگاہ رہی ہے۔ یہاں کئی تہذیبیں پلیں پھولیں اور عروج کی منزلیں طے کرکے زوال پذیر ہوئیں۔ کئی مذاہب نے اپنے اثرات یہاں چھوڑے اور کئی اقوام کی بود و باش اور ان کی طرزِ زندگی کے نقوش یہاں اُبھر کر ماند پڑ گئے۔ زمانۂ قدیم کے سوات میں موجود اُن تمام تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب میں بُدھ مت کو اوّلیت حاصل رہی۔ بُدھ مت یہاں باہر سے آیا لیکن اس نے یہاں عروج و رفعت کی بلندیاں حاصل کیں۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کے اثرات آج بھی سوات میں آثار قدیمہ کی شکل میں ہرجگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ سوات کا وہ کون سا علاقہ ہے جہاں بدھ آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ یہاں قدم قدم پر پھیلی ہوئی بدھ دور کی منہدم آبادیاں کھنڈرات کی شکل میں بدھ مذہب کی عظمتِ رفتہ کی طلسماتی کہانیاں سنا رہی ہیں۔
سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت میں فروزاں نظر آتا ہے۔ گویا سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا ہے، اُسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا ہے۔ گندھارا نہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔

سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت میں فروزاں نظر آتا ہے۔ (Photo: Gandharan Buddhism – WordPress.com)

گندھارا کا نام سب سے پہلے ہندؤوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں آیا ہے۔ اس کے بعد ایرانی، یونانی اور رومی زبانوں سے تعلق رکھنے والے تاریخی ذرائع سے بھی مختصراً معلوم ہوتا ہے، تاہم گندھارا کا مفصل ذکر چینی سیاح ہیون سانگ کی تحریروں میں ملتا ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں بُدھ مت کے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے برصغیر آیا تھا۔ چوں کہ گندھارا کا علاقہ بھی بُدھ مت کا اہم مرکز تھا، اس لئے وہ یہاں بھی آیا ۔ اس کی تحریروں کی روشنی میں گندھارا کی ریاست میں شمال کی طرف سوات، دیر، باجوڑ اور مشرق کی طرف دریائے سندھ تک کا علاقہ شامل تھا۔البتہ بیرونی حملہ آوروں کی یورشوں کی وجہ سے گندھارا کی ریاستی حدود وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی تھیں۔

گندھارا کا نام سب سے پہلے ہندؤوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں آیا ہے۔(Photo: Amazon India)

گندھارا کا صدر مقام:۔ گندھارا کے صدر مقام کے بارے میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ٹیکسلا جو اسلام آباد کے قریب واقع ہے، اسے بھی گندھارا کا صدرمقام قرار دیا جاتا ہے اور پشکلاوتی جو اَب چارسدہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور پشاور کے قریب واقع ہے،کو بھی گندھارا کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وادئ پشاور کو بھی قدیم زمانے میں گندھارا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور یہ ایک طویل عرصے تک گندھارا کا صدر مقام رہ چکا ہے۔ ’’ہنڈ‘‘ کو بھی گندھارا کے صدر مقام کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جہاں سکندرِ اعظم نے دریائے سندھ (اباسین) عبور کیا تھا۔ اسی طرح وادئ سوات کوبھی گندھارا کے صدر مقام کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔کیوں کہ سوات میں بُدھ مت اور گندھارا تہذیب کے قدیم اثرات کی بہتات ہے۔ سوات میں برآمد ہونے والی گندھارا تہذیب اور گندھارا آرٹ کے بعض نادر نمونوں سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ سوات میں گندھارا تہذیب کوبڑا عروج حاصل تھا اور اس تہذیب کے اثرات یہاں اس قدر زیادہ ملتے ہیں کہ سوات پر گندھارا آرٹ کی ایک بڑی فیکٹری کا گمان گزرتا ہے۔ جہاں بہترین نقش و نگار کی حامل کندہ کاری اور نفیس سنگ تراشی کے نمونے سلطنت گندھارا کے دیگر علاقوں میں بھی سپلائی کئے جاتے تھے۔ سوات میں جہان آباد میں بُدّھا کا قد آور خوب صورت مجسمہ گندھارا آرٹ کا ایک بہترین اور نایاب نمونہ ہے۔
گندھارا آرٹ کی وجۂ تسمیہ:۔ لفظ گندھارا کے بہت سے معانی نکالے جاتے ہیں، تاہم محققین کسی ایک معنی پر متفق نہیں۔ بعض مؤرخین کی تحقیق کے مطابق وسطی ایشیاء سے آنے والے قبائل کے ایک سردار کا نام گندھاریہ تھا جس نے اپنے نام سے یہ نو آبادی قائم کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سردار کی ایک بیٹی کا نام گندھاری تھا، جس کے نام پر اس علاقے کا نام گندھاری رکھ دیا گیا تھا جو بعد میں بگڑ کر گندھارا کہلایا۔
بعض کے خیال میں لفظ گندھارا کے معنی یہاں کی مشہور اون پر پڑ گیا تھا۔ بھیڑوں کی یہ اون بہت نفیس تھی اور اس کی شہرت کا ڈنکا پورے برصغیر میں بجتا تھا۔ افغانستان کے مشہور شہر قندھار سے بھی اس کی نسبت بیان کی جاتی ہے۔ ٹیکسلا جب بدھ مت کا مرکز تھا، تو اس وقت قندھارا سے بہترین سنگ تراش آئے تھے اور انھوں نے ہند، یونانی اور ایرانی فن کی آمیزش سے اپنے ہنر کے اعلیٰ جوہر دکھائے جس کے باعث یہاں کا نام ’’قندہارا‘‘ اور پھر ’’گندھارا‘‘ پڑ گیا۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔