گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 4 مینگورہ سے میرے والد صاحب مجھے اُٹھا کر محتاج ہیڈ ماسٹر (مرحوم) کے سکول بھیجنے لگے۔ ہمارا گھرگل کدہ نمبر 2 میں تھا، جہاں سے نمبر 4 سکول ویسے ہی بہت دور تھا، پھر نمبر 1 سکول اور ڈبل سے بھی زیادہ فاصلے پر…… لیکن ایک تو محتاج ہیڈ ماسٹر صاحب کا وہاں ہونا، جو فزکس اور حساب کی کلاسیں خود لیتے تھے، دوم میرے چچا یوسف شاہ اسی سکول میں کلرک تھے۔ اُسی سکول کے پرائمری میں کاکا استاد صاحب، میرے پھوپھا جی، یہ تمام وہ ریفرنسز تھے، جن کی بہ دولت اگلے دو سال مجھے مکان باغ کے فارم جیسے سنسان راستے سے گزر کر، مزید گلیوں میں سے ہو ہو کر بہتر تعلیم حاصل کرنا تھی۔ واضح رہے کہ مکان باغ فارم میں اب اس پگڈنڈی پر پکی سڑک، پریس کلب، ہاکی اسٹیڈیم، خپل کور ماڈل سکول اور بیڈمنٹن کورٹ بن چکے ہیں۔
گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 4 کا ’’قصور‘‘ یہ ٹھہرا کہ میں بہ مشکل مڈل میں فرسٹ ڈویژن لے کر پاس ہوسکا، جب کہ مجھ سے توقعات ’’نیوٹن‘‘ والی کارکردگی کی تھیں۔ مَیں جب نمبر 1 سکول پہنچا، تو وہ بلاشبہ بڑا سکول تھا، مگر نمبر 4 سکول کی نسبت کچھ دیہی ماحول رکھتا تھا۔ اس کی وجہ اردگرد کے وہ علاقے تھے، جو ابھی مکمل طور پر شہر نہیں بنے تھے۔ طلبہ کی تعداد زیادہ، ماحول قدرے سیکولر اور آزاد خیال بھی تھا۔
نمبر 4 اسکول 8 کمروں پر مشتمل تھا، جن میں ہیڈ ماسٹر، لائبریری، کلرک کا آفس اور اسٹاف روم بھی اُنھی کمروں میں شامل تھے۔ چھٹی جماعت سے دسویں تک ہر جماعت کے لیے ایک ہی بس اور بڑا کنٹرولڈ نظام تھا۔
نمبر 1 اسکول میں کلاس اے اور بی الگ تھیں۔ کلرک کا الگ کمرا، وسیع برآمدہ، ہیڈ ماسٹر کا کمرا الگ اور اسٹاف روم بھی الگ ہی تھا۔ مَیں جیسے ایک عظیم الشان عمارت میں آگیا۔ شروع کے چند دن آنر بورڈ کے آس پاس رہا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب، چچا اور پھوپھا جی کو میں ’’جانو جرمن خان‘‘ لگتا تھا۔
سب سے اگلی نشست پر مَیں اور خوازہ خیلہ سے اعلا تعلیم کی خواہش لے کر آنے والے کیول رام بٹھائے گئے۔ ایک دو دن ہی گزرے تھے کہ ایک نہایت ہی لڑاکو قسم کے لڑکے کہیں سے آئے۔ ڈسک بھی ساتھ لائے اور ہمارے آگے بیٹھ گئے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ ایک لمبی ناک والا لمبا جان عالم ہے اور دوسرا لمبی ناک والا قدرے کم لمبا جہانزیب اُس کا ساتھی ہے۔ یہ دونوں اپنے گاؤں اینگرو ڈھیرئی کے سکول میں تعلیم کا سلسلہ ختم کرکے اعلا تعلیم کے حصول کے لیے نمبر 1 سکول آئے ہیں۔ اُن میں وہ لمبا پورا دن پیچھے مڑ مڑ کر ہنستا اور قدرے کم لمبے کے کان میں کچھ کہتا۔ پھر دونوں اچانک مل کر دیکھتے اور ہنستے۔ کیول رام، جن کے کان میں پیدایشی نقص تھا، مجھ سے استفسار کرتا: ’’کیا کہا؟‘‘
مَیں کیول رام کو زہر بھری نظروں سے دیکھ کر کہتا: ’’کان اور ہونٹوں کے درمیان لفظوں پر میں قادر نہیں۔‘‘ اور وہ کہتا: ’’اچھا اچھا!‘‘ جیسے سمجھ گیا ہو کہ اُنھوں نے کیا کہا ہوگا۔
کچھ عرصے میں ہماری ایک دوسرے کے ساتھ شناخت ہوگئی۔ جہانزیب سے پہلے ’’دوستی نمائی‘‘ اور پھر واقعی دوستی ہوئی۔ ایک دن کلاس میں کسی خیرخواہ نے کہا:’’جانتے ہو یہ کون ہے؟‘‘ مَیں نے نفی میں سر ہلایا، تو اُس نے کہا: ’’یہ دشمن دار ہے!‘‘ مَیں نے اس کم زور سے جہانزیب کو دیکھا، جو اُس وقت بھی ہنس رہا تھا، اور شک کا اظہار کیا۔ اُس نے دلیل دی: ’’یہ شاہجہان کا بیٹا ہے، جس نے ایک خرمانی کے بدلے چھے قتل کیے تھے۔‘‘
یہ بات مَیں نے وقت ضائع کیے بغیر تین چار دفعہ کیول رام کو سمجھائی، جس نے لمحہ ضائع کیے بغیر گروبخش لال، کندن لال اور امرجیت گاندھی کو گوش گزار کی…… اور سب نے محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔اُس کے بعد اُن کے ہنسنے پر کیول رام نے پوچھنا چھوڑ دیا۔ دوسری طرف اس تمام صورتِ حال سے بے خبر جہانزیب دوستی بڑھانے کی کوشش میں رہا۔ اُس سے بارود کی بو آتی تھی۔ اُس کا لکھا ہوا ہر شے ’’سازشی بیانیہ‘‘ لگتا تھا۔ اُس کی کتابوں کو دیکھ کر لگتا کہ یہ ضرور کچھ اور ہیں، اُس کے قلم سے تڑتڑاہٹ کی آواز آتی تھی۔ کیول رام راوی بھی تھا، گواہ بھی اور سہارا بھی۔
دن چھوٹے ہوئے، تو چھٹی دیر سے ہونے لگی۔ لمبے بریک کا دور آیا۔ سب کی طرح جہانزیب کو بھی میرے اجنبی مسافر ہونے کا پتا چلا اور دور افتادہ گھر کے متعلق معلومات ملی، تو اس کا دکھ دیدنی تھا، مگر کیول رام کا خیال تھا کہ مَیں ساتواں مبینہ مقتول ہوں۔
نمبر 1 سکول کے پیچھے کھیت ہی کھیت تھے۔ اس کے آگے کچھ آبادی سے نکل کر ایک طویل پگڈنڈی تھی، جو جہانزیب کے گاؤں جاتی تھی۔ ایک دن اُس نے تقریباً زور دے کر مجبور کیا، اور مَیں بریک میں اُس کے ساتھ اس کے گاؤں گیا۔ پورے راستے ایک قہقہہ مارنے والا، مونچھوں کو تاؤ دینے والا، ہاتھ میں بندوق، زبان پر گالی جہانزیب کا ظالم ابا یاد آتا رہا۔ بھوک تو تھی ہی نہیں۔ بس ایک تمنا تھی کہ واپس جاؤں اور کیول رام کے گلے لگ کر روؤں۔
مگر جب اُن کے گھر پہنچے ، وہاں ’’جاجا‘‘ سے ملاقات ہوئی…… ’’شاہجہان جاجا کٹہ خیل قاتل۔‘‘
مگر وہاں تو ایک نہایت نرم مزاج، نرم گو اور خوش طبع انسان ملا۔ مَیں پوچھ نہ سکا کہ یہ اصلی والا ہے یا کوئی اور؟
’’جاجا‘‘ نے تھوڑی دیر بات کی۔ پھر تعارف معلوم کیا۔ پھر جہانزیب کی عزت افزائی کی اور زیادہ قریب ہو کے کہا: ’’بیٹا، اتنے دن ہوگئے، اس نے پہلے آنے کا کیوں نہیں کہا؟‘‘
مَیں زندگی میں کم ایسے صلح جو انسان سے ملا ہوں؛ انتہائی محنتی، مخلص، اور نرم دل۔ ایک دن میں نے چھے قتل والی بات پوچھ ہی لی، مگر اُن کو اچھا نہیں لگا۔ ’’خدا کی مرضی‘‘ اور ’’بڑا گناہ‘‘ کَہ کر بات ٹال دی۔
پھر ایک دن جہانزیب نے بڑی تفصیل سے ہر قتل کی روداد سنائی، جس میں یہ واضح ہوا کہ خرمانی پر قتل تو محض زیبِ داستان ہے۔ اصل میں خرمانی کے باغ پر لڑائی ہوئی تھی۔ آندھی چلی، خرمانیاں گرگئیں، اُنھیں اٹھانے کچھ بچے کھیتوں میں گھس گئے، جس پر جہانزیب کے کزنز اور اُن بچوں میں لڑائی ہوگئی۔ بچوں کی لڑائی گاؤں میں آگ کی طرح پھیل گئی اور بڑوں کے جھگڑے سے ہوتے ہوتے بات آتشیں اسلحے تک جا پہنچی۔ یوں اندھی گولیاں دو لوگوں کی جان لے گئیں۔
ایک اور قتل ایک چور کا کیا گیا تھا، جو مسلسل کھیت میں لگائے گئے میوہ دار پودے اکھاڑ کر لے جاتا تھا۔ جاجا نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا، مگر وہ اس کی گرفت میں مزاحمت کرتے ہوئے مرگیا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ چور شاید دمے کا مریض تھا۔ سانس اکھڑ گئی تھی۔ اس کی مدد کی گئی مگر سانس نہ حال نہ ہوسکی۔
قصہ مختصر ہر قتل کے پیچھے ایک اتفاق تھا۔ جہانزیب اپنے گھر کی واحد نرینہ اولاد ہیں، باقی سب اس کی بہنیں ہیں۔
جہانزیب سے تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ ملاقات رہتی ہے۔ اب تعلق دوستی سے کہیں آگے بڑھ گیا ہے، جسے کوئی بھی حالت ختم نہیں کر سکتی…… مگر ایک فرق ضرور آیا ہے ۔
جاجا جب حیات تھے، تو اس گھر میں میری ہر فصل، ہر سبزی، ہر فروٹ میں حصہ ہوتا تھا، جو جہانزیب اپنی کمر پر لاد کر میرے گھر پہنچاتا۔ جاجا کی وفات کے بعد جہانزیب اس ڈیوٹی سے آزاد ہوگیا۔
میں نے ان کے اچھے دن دیکھے، ہر شے کی فراوانی دیکھی، مگر پھر زوال بھی دیکھا۔ وہ زمین بیچنے پر مجبور بھی ہوئے، مگر رکھ رکھاو اور خلوص میں کبھی فرق نہیں دیکھا۔ اعظم خان کے قتل میں مجبوراً گناہ گار ٹھہرے، تو مل کی مشینری کو کباڑیے کے ہاتھ بیچتے دیکھا۔ شاید مجھ سے اور نہ لکھا جائے۔
جاجا کو جنت میں اعلا مقام عطا ہو اور جہانزیب کسی کے سامنے کم زور نہ ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










