یہ بیانیہ بڑی شد و مد سے آج کل پھیلایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی میں ’’فارورڈ بلاک‘‘ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ شاید دو ماہ تک یہ فارورڈ بلاک کھل کر سامنے آ جائے گا۔
اہم بات یہ ہے کہ ذرائع کے دعوے کے مطابق فارورڈ بلاک میں پی ٹی آئی کے ممبراٹنِ قومی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد شامل ہوگی۔
ذرائع کا یہ بھی دعوا ہے کہ پنجاب میں بھی اس سلسلے میں ہوم ورک مکمل ہوچکا ہے، لیکن فی الحال سارا فوکس مرکز پر ہے۔
فارورڈ بلاک کی یہ خبر پاکستان پیپلز پارٹی کے حلقوں سے دی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر واقعی قومی اسمبلی میں فارورڈ بلاک کی تشکیل رو بہ عمل آتی ہے، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی ہی کو ہوگا۔ اسمبلی میں اس کی پوزیشن قدرے کم زور پڑجائے گی۔ اس کی بارگیننگ ویلیو میں کمی آئے گی اور حکومت کو اس کی آئے روز بلیک میلنگ کی دھمکیوں سے نجات مل جائے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی گذشتہ ایک سال سے بڑی سمارٹ گیم کھیل رہی ہے۔ آصف علی زرداری بلاشبہ اس دور کے ذہین ترین سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری ان کی راہ نمائی میں ایک منجھے ہوئے سیاست دان کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔
2024ء کے انتخابات میں دونوں باپ بیٹا اپنے اپنے مقصد کے تحت اترے تھے۔ بلاول اپنے باپ کو صدرِ مملکت بنوانا چاہتے تھے اور آصف زرداری اپنے نوجوان بیٹے کو وزیرِ اعظم کے روپ میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ الیکشن کے بعد بلاول بھٹو کی خواہش تو پوری ہوگئی، مگر آصف زرداری کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ الیکشن سے قبل کیے گئے معاہدے کے تحت دونوں جماعتوں میں سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) وزارتِ عظمیٰ کی حق دار ٹھہری، جب کہ پیپلز پارٹی کو ملک کی صدارت مل گئی۔
مسلم لیگ (ن) نے آصف زرداری اور بلاول کو وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش کر دی تھی، مگر اُنھوں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی کہ پارٹی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ گردن کے اوپر لٹکتی ہوئی کچے دھاگے سے بندھی تلوار کے مترادف تھی۔ اُنھوں نے ملکی صدارت کے علاوہ دو صوبوں کی گورنر شپ اور بہت سے سرکاری اداروں کی سربراہی لے لی، تاہم وزارتوں کی پیش کش قبول نہیں کی۔
بلاول چاہیں، تو آج بھی وزارتِ خارجہ اُن کی منتظر ہے، لیکن وہ حکومت کا حصہ نہ بن کر زیادہ فائدے میں ہیں۔ جب چاہتے ہیں حکومت کو ساتھ چھوڑنے کی تڑھی لگاکر کام نکلوا لیتے ہیں۔ اگر وہ ناکام ہوئے ہیں، تو صرف پنجاب کے معاملے ہی میں ناکام ہوئے ہیں۔ پنجاب میں اپنی پارٹی کے لیے وہ جو سپیس چاہتے ہیں، وہ انھیں مل نہیں رہی۔ بلاول کو اس بات پر شدید غصہ بھی ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی مرکز میں وزارتیں قبول کرکے کانٹوں کی تقسیم میں حصہ دار بھی بنے۔ اسے یقین ہے کہ حکومتی مدت پوری ہونے سے چند ماہ پہلے بلاول بھٹو آیندہ الیکشن کی مہم کے لیے کوئی بہانہ بنا کر حکومت کی حمایت ختم کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں، تاکہ الیکشن میں مضبوط بیانیہ بنایا جاسکے۔ بلاول بھٹو نے اپنے جثے کے مطابق حصہ وصول کر رکھا ہے، مگر گاہے گاہے حکومت کو بلیک میل کرنے کے مواقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
2022ء، 2023ء اور 2024ء میں بجٹ کے مواقع پر اُنھوں نے حکومت کو پریشان کیا تھا۔ ہم ایک ماہ پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اس مرتبہ بھی بجٹ کے موقع پر بلاول حکومت کو پریشان کریں گے۔ حسبِ توقع انھوں نے ایسا ہی کیا ہے۔
اب کی بار بہانہ نئی نہروں کی کھدائی کا بنایا گیا ہے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ نہروں کے معاملے پر زرداری اور بلاول کو اعتماد میں لے کر اُن کی رضامندی حاصل کرلی گئی تھی، لیکن سندھی قوم پرستوں کے احتجاج اور بیانیے کی وجہ سے اُنھوں نے اپنی حمایت واپس لے لی ہے۔
حکومت واضح کر چکی ہے کہ پیپلزپارٹی نے اگر مخالفت کی، تو نہروں کے منصوبے پر نظرِ ثانی کی جاسکتی ہے۔ بلاول نے اس کے باوجود حکومت سے بات کرنے کی بہ جائے بجٹ پاس نہ ہونے دینے کی دھمکی دے دی ہے۔
دراصل بلاول کا اصل مسئلہ پنجاب میں شیئر لینا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا اس حوالے سے موقف ہے کہ بلاول بھٹو کی روز روز کی بلیک میلنگ سے نمٹنے کا یہ بہترین حل ہے کہ پی ٹی آئی میں بڑے سائز کا فارورڈ بلاک بن جائے، جو حکومت کی حمایت کرے۔
سنا ہے کہ اس پر کافی حد تک ہوم ورک ہوچکا ہے۔ آیندہ چند ہفتوں میں صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔ سیاست دانوں کا وفاداریاں تبدیل کرنا پاکستان میں عام سی بات ہے۔ ہماری تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی بے پناہ مقبولیت کے دعوؤں کے باوجود الیکٹ ایبلز کے ستونوں پر کھڑی ہیں۔
لگتا ہے کہ کوئی ایڈونچر کرنے یا سوچنے سے پہلے ہی بلاول بھٹو ’’بیک فٹ‘‘ پر جانے پر مجبور کر دیے جائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
