وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے سے بجلی نرخوں میں حوصلہ افزا کمی کا اعلان کیا گیا۔
بعد ازاں وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری نے پریس کانفرس میں بجلی نرخوں میں کمی کے اثرات کی بابت چیدہ چیدہ نِکات کا اظہار کیا۔ جیسا کہ:
٭ دوسو یونٹ والے بجلی صارفین کے بل آدھے ہوجائیں گے۔
٭ کمرشل صارفین کا 71 روپے ریٹ تھا، اب 62 روپے 47 پیسے ہوگا۔
٭ کمرشل صارفین کے ریٹ میں 12 فی صد کمی آئے گی۔
٭ بجلی ترسیل کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے وزیر توانائی نے 6 بجلی کمپنیوں کی نج کاری کا اعلان کیا اور پہلے مرحلے میں آئیسکو، گیپکو اور فیسکو کی نج کاری کی جائے گی۔
اویس لغاری کے مطابق ملک میں بجلی کی ترسیل کے مسائل ہیں۔ اگر مسائل حل ہوجائیں، تو بجلی مزید 2 روپے سستی ہوسکتی ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ گردشی قرض 24 سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
قارئین! بجلی نرخوں میں کمی پر ہر کوئی اپنے تئیں شیخیاں مارتا دِکھائی دے رہا ہے۔ حکومتِ وقت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتیں بھی بجلی نرخوں میں کمی کو اپنی سیاسی کارکردگی کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔ بہ ہرحال دیر آید درست آید کے مترادف بجلی نرخوں میں کمی کا اعلان تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ضرور ہے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ ہم پاکستانی اصل مسائل کی بہ جائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے پیچھے زیادہ دوڑتے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہی حال آسمان سے باتیں کرتے بجلی کے بلوں کا ہے۔
میری نظر میں پاکستان میں بجلی بلوں میں اضافہ کی سب سے بڑی وجہ ’’بجلی چوری‘‘ ہے، جس کی جانب نہ تو ماضی اور حال کی حکومتیں صحیح معنوں میں ایکشن لیتی دِکھائی دی ہیں اور نہ کبھی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو اس موضوع پر صحیح معنوں میں بات کرتے ہی دیکھا گیا ہے۔
کلمۂ طیبہ کے نام پر وجود میں آنے والی اسلامی مملکت پاکستان میں سالانہ کتنی بجلی چوری ہوتی ہے؟ ستمبر 2023ء میں اُس وقت کے نگران وفاقی وزیرِ توانائی محمد علی نے پریس کانفرنس کے دوران میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں بجلی کی سالانہ چوری 589 ارب روپے (یعنی 49 ارب روپے ماہانہ) ہے اور اس چوری کی وجہ سے جو لوگ بل ادا کرتے ہیں، اُنھیں بجلی مہنگی ملتی ہے۔
نگراں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں (علاوہ کراچی) ترسیل ہونے والی بجلی کی مجموعی بلنگ سالانہ 3781 ارب روپے ہے، یا سادہ الفاظ میں کہیے کہ مجموعی طور پر 3781 ارب روپے مالیت کی بجلی سالانہ سسٹم میں ڈالی جاتی ہے، تاہم اس میں سے 3192 ارب روپے موصول ہوتے ہیں، جب کہ 589 ارب کی بجلی چوری ہوجاتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پانچ ڈسکوز بہ شمول پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں سالانہ 737 ارب روپے کی بلنگ ہوتی ہے، مگر 60 فی صد (489 ارب) نقصان یا چوری کے بعد صرف 248 ارب روپے موصول ہوتے ہیں۔
اسی طرح دیگر پانچ ڈسکوز بہ شمول اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ میں 3044 ارب روپے کی بلنگ ہوتی ہے، جب کہ موصول ہونے والی رقم 2944 ارب روپے ہے۔ یوں 100 ارب کی بجلی کی چوری یا نقصان ہو جاتا ہے۔
یاد رہے کہ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے یعنی 30 مارچ 2024ء کو وزیرِ اعلا پنجاب مریم نواز شریف کی زیرِ صدارت اجلاس میں بتایا گیا کہ صوبہ پنجاب میں 100 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔ بجلی چوری، اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا۔ وہ گرینڈ آپریشن کہاں تک پہنچتا؟ اُس کی کسی کو کوئی خیر خبر نہیں۔
بجلی چوری کے حوالے سے گذشتہ سال کے سرکاری اعداد و شمار 589 ارب روپے سالانہ بتائے گئے اور یقینی طور پر موجودہ وقت میں یہ چوری چھے سو ارب روپے سے زیادہ ہوچکی ہوگی۔
پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق اس کو ’’بدقسمت ریاست‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’خوش نصیب ریاست‘‘ بھی کہاجاسکتا ہے۔ کیوں کہ آج تک اس کو اتنا لوٹا گیا، مگر یہ اللہ کے آسرے آج تک قائم و دائم ہے۔
بجلی چوری کے حوالے سے چند سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ:
بجلی چوری کہاں اور کیسے ہوتی ہے؟ بجلی کی تاروں پر سرِ عام کنڈیاں کہاں کہاں لگائی جاتی ہیں؟ بجلی چور نیٹ ورک کہاں کہاں موجود ہیں؟ بجلی چوری کرواتا کون ہے؟ بجلی چوری کے بدلے فوائد کون سے سرکاری اہل کار اُٹھاتے ہیں؟ کیا بجلی چوری کے سدِباب کے لیے قوانین موجود نہیں؟ بجلی چوروں کے خلاف ایکشن اور ان کو سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں؟ کیا چھے سو ارب روپے سالانہ بجلی چوری کا نقصان بھگتنا غریب شہریوں کی ذمے داری ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات پاکستان کے ہر شہری کو بہ خوبی معلوم ہیں، مگر افسوس پاکستانی حکومتیں اربوں ڈالر سالانہ بجلی چوری روکنے کی بہ جائے، گردشی قرضہ کا رونا دھونا کرتی ہوئی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایسے اداروں کے گھٹنوں میں بیٹھ کر چند ارب ڈالر کی بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی چوری کے سدِ باب کے لیے جنگی بنیادوں پر ایکشن لیا جائے۔ ورنہ آنے والے چند سالوں میں بجلی چوری کے سالانہ نقصانات ایک ہزار ارب روپے تک پہنچ جائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
