اوہنری کی مختصر کہانی ’’دی لاسٹ لیف‘‘

Aurangzeb Qasmi

تحریر: اورنگ زیب قاسمی
شاخیں رہیں، تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں،تو اچھے بھی آئیں گے
’’دی لاسٹ لیف‘‘ اوہنری کی ایک مختصر کہانی ہے، جو پہلی بار 15 اکتوبر 1905ء کو نیویارک ورلڈ میں شائع ہوئی۔
٭ خلاصہ:۔ یہ کہانی گرین وچ گاؤں میں نمونیا کی وبا کے دوران میں جنم لیتی ہے۔ یہ قصہ ہے ایک بوڑھے فن کار کا، جو نمونیا سے مرتی ہوئی ایک نوجوان پڑوسن فن کارہ کو زندہ رہنے کی خواہش دے کر اُس کی جان بچاتا ہے۔ موسمِ خزاں میں وہ خاتون اپنی کھڑکی سے ایک پرانی آئیوی کریپر کو آہستہ آہستہ اپنے پتے گراتے ہوئے دیکھتی ہے اور اس کے دماغ میں یہ غلط خیال پیدا ہوتا ہے کہ آخری پتا گرنے پر وہ بھی مر جائے گی۔ پتے دن بہ دن جھڑ کر کم ہونے لگتے ہیں، لیکن آخری واحد پتا کئی دنوں تک شاخ سے جڑا رہتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر بیمار خاتون پر نفسیاتی اثر ہوتا ہے اور اُس کی صحت تیزی سے ٹھیک ہونے لگتی ہے۔
کہانی کے اختتام پر ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ بوڑھا فن کار، جو ہمیشہ ایک شاہ کار پینٹنگ تیار کرنے کا آرزو مند تھا، لیکن اسے کبھی کام یابی نہیں ملی تھی، اُس نے پوری رات دیوار پر ایک پتے کو بڑی حقیقت پسندی کے ساتھ پینٹ کرکے ایک شاہ کار بنا ڈالا ہے (مطلب جس پتے نے خاتون کو جینے کا حوصلہ دیا تھا، وہ اُس مصور نے بنایا تھا) لیکن شدید سردی میں باہر رات گزارنے کے باعث بوڑھا فن کار خود نمونیا کی وجہ سے مرجاتا ہے۔
’’او ہنری‘‘ کے ’’دی لاسٹ لیف‘‘ کا بنیادی سبق امید کی طاقت اور کبھی ہار نہ ماننے کی اہمیت ہے۔اسی طرح اس کہانی میں بنیادی طور پر ایک مُثبت سوچ کے اثرات، قربانی اور ایثار کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے