ایک دن میں اپنے دفتر سے واپس اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں داخل ہو رہا تھا۔ اچانک دیکھا کہ وہ ایک کونے میں، ہاتھوں میں ایک گٹھڑی اٹھائے، کھڑی ہے۔ مَیں نے ہکلا کر پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے اور وہ میرے گھر کو کیسے جانتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنا گھر چھوڑ چکی ہے اور اب واپس نہیں جائے گی۔ وہ میرے ساتھ رہنے آئی تھی، شرعی بیوی کے طور پر نہیں، تو نوکرانی بن کر۔ مَیں نے بڑی مشکل سے اسے سمجھایا اور یقین دلایا کہ مَیں اسے مناسب وقت پر باعزت طریقے سے اپنے گھر لاؤں گا۔ وہ میرے اس وعدے پر، کہ مَیں اس کے والد سے اس کا ہاتھ مانگوں گا، واپس جانے پر راضی ہو گئی۔
اس وقت میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اپنے والد سے یہ بات کیسے کہوں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مجھ سے محبت کرتے تھے، لیکن انھوں نے مجھے خاندانی روایات کی خلاف ورزی کرنے یا ان کی رضا مندی کے بغیر اپنی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا تھا۔ لہٰذا، مَیں نے اپنے والد کو روشی سے شادی کرنے کے عزم کے بارے میں بتانے کے لیے کچھ دوستوں کو ان کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔
دفتر میں میرے ساتھی عبدالقیوم اور ایک مشترکہ دوست خلیفہ نے اگلی شام عشا کی نماز کے بعد میرے والد سے ملنے پر اتفاق کیا۔ مَیں نے اپنے والد کو اپنے دوستوں کے آنے کے بارے میں بتایا۔ اس نے مجھ سے ان کے آنے کا مقصد پوچھا۔ مَیں نے نفی میں جواب دیا کہ مَیں نہیں جانتا۔
اس شام بہت تیز بارش ہو رہی تھی اور مجھے شک تھا کہ وہ اس طوفانی اندھیری رات میں آ پائیں گے کہ نہیں…… لیکن وہ وعدے کے مطابق آگئے۔ جب وہ آگ کے قریب آرام سے بیٹھ گئے، تو مَیں کمرے سے باہر نکلا اور باہر برآمدے میں کھڑا ہوگیا۔ میرے کان ان کے درمیان ہونے والی گفت گو کی طرف تھے۔
جب انھوں نے میرے والد کو روشی کے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتایا، تو میرے والد کی آواز اتنی بلند ہوگئی، جس کا انھوں نے پہلے کبھی استعمال نہیں کیا اور دو ٹوک الفاظ میں انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم غریب ہوسکتے ہیں، لیکن ہم اپنی روایات سے کبھی باہر نہیں گئے۔ اگر وہ اب بھی اس لڑکی سے شادی پر اصرار کرتا ہے، تو اسے کہو کہ میرا گھر چھوڑ دے۔ مَیں اپنے اُس بیٹے کو کھونے کا درد برداشت کرنے کی کوشش کروں گا، جو مجھے دنیا میں سب سے زیادہ پیارا ہے۔
مَیں مزید سننے کے لیے نہیں رُکا اور اندھیری طوفانی رات میں گھر سے باہر نکل گیا۔ مَیں سڑک پر چلتا رہا۔ کوئی نفس نظر نہیں آرہا تھا۔ میرے ساتھ صرف میرا رنج و غم تھا۔ فجر کے وقت میں بھیگا اور تھکا ہارا گھر لوٹا۔ مجھے اُس دن تیز بخار تھا۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا، مَیں نے اپنے باپ کا ہاتھ اپنے ماتھے پر محسوس کیا۔ وہ درد بھرے لہجے میں بول رہا تھا: ’’میرے بیٹے، خدا را! اس مشکل سے گزرنے میں میری مدد کرو۔ میں تمھیں کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ میں تمھاری خواہش کو مان ہی سکتا ہوں۔ خاندان میں یا باہر سے کسی بھی ایک لڑکی کا انتخاب کر لو، لیکن اُس کا نہیں۔‘‘
یوں مَیں نے روشی کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا…… لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ میرے والد کا فیصلہ درست تھا۔
50ء کی دہائی کے اوائل میں، غربت دنیا کے اِس حصے کا بنیادی مسئلہ تھی۔ ریاست نے اپنے تمام وسائل کو اپنے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا، لیکن قلیل وسائل نے ریاستی ملازمتوں کو تعلیم اور صحت کی خدمات تک محدود کر دیا تھا۔ سیکڑوں تعلیمی ادارے، صرف چار ہزار تک افراد کو ایڈجسٹ کر سکتے تھے۔ ان تلخ حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے والی صاحب نے علاقے میں امن قائم ہونے کے بعد بھی ریاستی فوج کو تحلیل نہیں کیا، بل کہ مواصلات سے متعلق تعمیراتی منصوبوں میں استعمال کیا۔ لہٰذا اگر ہم محتاط اندازہ لگائیں، تو ریاست نے ریاست کے مختلف محکموں میں مجموعی طور پر 30 ہزار لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کیے۔
زرعی شعبے سے اتنی پیداوار حاصل ہوتی جو سوات کی نصف آبادی کے لیے ہی کافی ہوتی۔ ہائبرڈ انقلاب ابھی بہت دور تھا اور زمینیں اپنی صلاحیت سے کم پیداوار دے رہی تھیں۔ اس لیے زیادہ تر لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر مرکزی سرزمین کے دوسرے حصوں، خاص طور پر کراچی جانے پر مجبور ہوگئے، جسے مقامی بولی میں ہم ’’کلاچئی‘‘ کہتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ریاست کے دیگر حصوں میں کیا صورتِ حال تھی، لیکن ہمارے گاؤں ابوہا میں، زیادہ تر بالغ مرد کراچی میں رہتے تھے۔ گاؤں میں صرف بوڑھے اور بچے نظر آتے تھے اور کچھ اچھے زمین دار یا گجر۔
بنارس، آگرہ تاج، شیرشاہ، پٹیل پاڑا جیسے کچھ علاقے پٹھان آبادی کے گڑھ تھے۔ ہمارے خاندان میں سب سے پہلے کراچی میرا ایک کزن گیا تھا۔ تب وہ ابھی ساتویں کلاس ہی میں تھا۔ پھر اس کے دوسرے بھائی بھی گاؤں چھوڑ گئے ۔ خوش قسمتی سے میرے کزن کو بروک بانڈ کمپنی میں نوکری مل گئی اور جلد ہی سپروائزر بن گیا۔ اس نے اپنے تمام بھائیوں اور اپنی ماں کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد کو وہیں پر بھرتی کرا لیا۔
ہمارے گاؤں کے ملاؤں کا ایک اور خاندان بھی کراچی میں رہتا تھا۔ اس خاندان کے پاس کافی زمینیں تھیں، لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا، وہ زمینیں گزر بسر کے لیے کافی نہیں تھیں۔ میرے کزن نے انھیں بھی بروک بانڈ کمپنی میں بھرتی کرا لیا۔ کیوں کہ وہ اس کی والدہ کے رشتہ دار تھے۔ 1958ء میں اس نے اسی خاندان کی ایک لڑکی سے شادی کی، تو ایک طرح سے وہ ہمارے بھی رشتہ دار بن گئے۔
وقت گزرتا گیا اور 1965ء میں، میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا، لیکن کس کے ساتھ……؟ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال تھا۔ اور شادی کے لیے پیسا کہاں سے اور کیسے آئے گا؟ یہ دو ملین ڈالر کا سوال تھا۔ ریاستی P.W.D، پاک P.W.D کی طرح نہیں تھی۔ آپ کو صرف اپنی تنخواہ پر گزارہ کرنا تھا۔
مَیں مانیار اور ابوہا میں دو مڈل سکولوں کی تعمیر کی نگرانی کر رہا تھا۔ ایک دن میں سائیکل پر ابوہا گیا۔ سائیکل اپنے کزن کے سسرال میں چھوڑی، جو مین روڈ پر واقع تھا اور پہاڑی کے دامن میں اپنے گاؤں ’’چم‘‘ تک پیدل چلا گیا۔ جب مَیں اس گھر میں واپس آیا، جہاں میری سائیکل کھڑی تھی، میری کزن کی خوش دامن نے مجھ سے ایک کپ چائے پینے کو کہا۔ چائے ان کی بیٹی نے بنائی تھی۔ اس کا ذائقہ بہت لذیذ اور سکون بخش تھا۔ مَیں نے چائے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا اور واپس آ گیا۔
سیدو شریف پہنچ کر مَیں نے اچانک اس لڑکی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں میں اپنی ہونے والی بیوی سے ملا، جس کے ساتھ مَیں نے اپنی زندگی کے 45 سال گزارے ۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔