کبھی خواب نہ دیکھنا (اٹھائیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

ان سالوں میں مجھے مانیار، ابوہا اور پبلک سکول سنگوٹہ کے ایک بڑے ٹیچنگ بلاک میں تعمیرات کی نگرانی اور کچھ اور پروجیکٹس کرنے تھے۔ یہ مصروف ترین سال تھے اور وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا، لیکن مجھے اپنے پہلے معاشقے کا موقع مل ہی گیا۔
میرے بڑے بھائی فضلِ وہاب، شیر خان کو لائے بغیر ہندوستان سے واپس آگئے۔ شیر خان نے ہندوستان چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ میرے بھائی اب ایک تجربہ کار محنتی نوجوان تھے۔ اس لیے انھوں نے کہیں نوکری تلاش کرنے کی کوشش کی۔ انھیں ریاست میں ملازمت کرنا پسند نہیں تھا۔ وہ نوشہرہ چلے گئے، جہاں ہمارے کچھ رشتہ دار مقیم تھے۔ انھیں آدم جی پیپر ملز میں نوکری مل گئی۔ انھوں نے ہندوستان میں رہ کر کچھ پیسا بھی کمایا اور بچایا تھا۔ انھوں نے واپسی میں کراچی میں ہندوستانی کرنسی تبدیل کرائی تھی اور یہ رقم ان کی شادی کے اخراجات کے لیے کافی تھی۔
میرا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میرا مزاج تھوڑا سا ’’چوزی‘‘ (Choosy) تھا۔ میں شادی کے بہ جائے پیار کرنا چاہتا تھا۔ سیدو شریف میں سڑک کے کنارے کوارٹرز کا ایک بلاک زیرِ تعمیر تھا۔ اس بلاک کے پیچھے گارے سے بنے پرانے گھروں کی ایک بڑی تعداد تھی، جس میں مختلف طبقوں کے لوگ رہتے تھے۔ ان کوارٹروں کے کچھ حصے پر کنکریٹ کی چھت ڈالی جانی تھی، مگر اس دن انچارج اوورسیئر کہیں اور مصروف تھے۔ میرے افسر نے مجھے اس کام کی نگرانی کرنے کے لیے کہا۔ مَیں کنکریٹنگ کے روز، عین وقت پر وہاں پہنچ گیا۔ مَیں نے پیلے رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ نیلے رنگ کا پینٹ پہنا ہوا تھا۔ اُس روز میرے مزاج آسمان پر تھے اور مَیں اپنے آپ کو ’’ٹاپ کلاس لیڈی کلر‘‘ سمجھ رہا تھا۔
مزدور اس عمل کے دوران میں بہت شور مچا رہے تھے۔ مَیں آس پاس کے گھروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ ان چھوٹے گھروں کے اندر کس قسم کے لوگ رہتے ہوں گے؟ اچانک مَیں نے مٹی کی دیوار میں بنے ایک دائرہ نما روزن میں ایک چہرہ دیکھا۔ چہرہ اس روزن میں فریم کی گئی تصویر کی طرح لگ رہا تھا۔ میری آنکھوں نے کہیں اور دیکھنے سے انکار کر دیا اور اس بڑی نیلی آنکھوں کے جوڑے پر جم گئیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری تلاش ختم ہو گئی ہو۔ یہ وہ چہرہ تھا جسے مَیں زندگی کی پہلی سانس سے دیکھنا چاہتا تھا۔
اچانک وہ چہرہ غائب ہوگیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے سورج اپنی روشنی کھوچکا ہے۔ مَیں بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ پھر جیسے صدیاں گزر گئیں، لیکن درحقیقت 20 منٹ سے بھی کم وقت میں وہ چہرہ دوبارہ نمودار ہوا۔ اس بار وہ دو آنکھیں مسکرا رہی تھیں، باتیں کر رہی تھیں، پیغامات دے رہی تھیں، حوصلہ افزائی کر رہی تھیں اور بہت سے اَن کہے الفاظ بول رہی تھیں۔ ظاہر ہے کہ مَیں اس کا نام نہیں جانتا تھا۔ لہٰذا مَیں نے خود ہی اس کے لیے ایک نام گڑ لیا، ’’روشی‘‘۔ سوچ رہا تھا کہ اگر کبھی اس سے ملاقات ہوگئی، تو میں اسے اس نام سے پکاروں گا۔
چھت ڈالنے کا پروجیکٹ میرے دائرۂ اختیار میں نہیں تھا اور وہ سلیب کی نگرانی صرف ایک عارضی ذمہ داری تھی۔ میرے پاس اب وہاں جانے کا کوئی بہانہ نہیں تھا۔
میرا چھوٹا بھائی فضلِ معبود اُس وقت جہانزیب کالج میں ’’ایف ایس سی‘‘ کا طالب علم تھا۔ اس نے مجھے کالج میگزین ’’ایلم‘‘ کے لیے اپنی طرف سے کچھ لکھنے کے لیے کہا۔ مَیں نے روشی کے عنوان سے اُردو میں ایک افسانہ لکھا۔ یہ رسالے میں میرے بھائی کے نام سے شائع ہوا۔ ایک دن میں نے کسی بہانے سے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ اس اُمید پر کہ ایک بار بھر اُن نیلی آنکھوں والا چہرہ دیکھ سکوں۔ میری عمر کے لوگوں کو شاید 50ء کی دہائی کے آخر میں ایک پاکستانی فلمی اداکارہ یاد ہو۔ اس کا نام ’’مینا شوری‘‘ تھا۔ اس لڑکی نے مجھے اُس اداکارہ کی یاد دلائی، خاص طور پر اس کا گول چہرہ، آنکھیں اور ناک۔ اس لیے مَیں اس تنگ گلی سے اس امید میں گزرا کہ شاید میں اسے دیکھ سکوں، لیکن اس کا کوئی اتا پتا نہیں ملا۔ مَیں اچاٹ اور ٹوٹے دل کے ساتھ مایوسی کے عالم میں واپس آگیا۔ اگلے دن، مَیں نے مین روڈ پر اپنی قسمت آزمائی اور جیسے ہی مَیں نے دیوار میں اس گول روزن کو دیکھا، وہیں تھوڑی دیر کے لیے رُک گیا اور اچانک، اس کا خوب صورت چہرہ نمودار ہوا۔ بہ قولِ غالبؔ
پھر حلقۂ کاکل میں پڑیں دید کی راہیں
جوں دود، فراہم ہوئیں روزن میں نگاہیں
اس کی نیلی آنکھوں میں اتنے سوالات تھے کہ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نے مجھے اشارہ کیا کہ مَیں اس کے گھر کے دوسری طرف آؤں۔ مَیں نے ایسا ہی کیا اور اسے اپنے دروازے میں کھڑا پایا۔ یہ ہمارا پہلا بہ راہِ راست رابطہ تھا، لیکن میں اتنا نروس تھا کہ مَیں ایک لفظ بھی بول نہ سکا۔ ہم وہاں کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ پھر اسے گھر کے اندر سے بلاوا آگیا اور وہ جلدی میں غائب ہوگئی۔ مَیں بھاری دل کے ساتھ اپنے گھر واپس آگیا۔ اب مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کس کی بیٹی تھی؟ ہمارا ملن تقریباً ناقابلِ تصور تھا…… لیکن مَیں نے امید نہیں چھوڑی اور ہم چند منٹوں کے لیے سہی مگر روز ملتے رہے۔ (جاری ہے)
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے