قارئین! غلام فاروق سے شناسائی تو معلوم نہیں کتنی پرانی ہے،مگر کالج میں پہنچا، تو پتا چلا کہ وہ ایک کلاس آگے تھا، آج کے غلام فاروق سے بہت مختلف۔
غلام فاروق ایک سیدھا سادھا، گرم جوش اور منھ پھٹ نوجوان تھا۔ لمبا چوڑا اور وجیہہ شخصیت کا مالک۔
غلام فاروق کی سنگت، زندگی اور نظریات کو اگر کسی نے متاثر کیا، تو وہ اُس کا سب سے قریبی دوست ہدایت علی تھا، جو ڈاکٹر امتیاز علی خان کا بیٹا تھا۔ فاروق کا کلاس فیلو اور شاید لااُبالی فاروق کا واحد دوست، جس کی ہر بات سنتا، غور کرتا اور عمل کرنے کی پوری کوشش کرتا۔ حیرت انگیز طور پر کبھی کبھی وہ غلام فاروق کو ڈانٹے سے بھی باز نہ آتا اور خود سر غلام فاروق بڑے احترام سے سن کر خاموش ہو جاتا۔ متعدد بار اپنے کہے اور کیے پہ پچھتاوا بھی ظاہر کرتا۔
ہدایت علی سیاسی طور پر سنجیدہ اور نظریات میں کلیئر تھا۔ وہ قومی جمہوری انقلاب کا حامی اور پرولتاریہ اقتدار کی جد و جہد کا مخلص کارکن تھا۔ اُس کی سیاسی بحث، نظریات کی پختگی اور عمل کی کوشش نے غلام فاروق میں بڑی تبدیلیاں پیدا کیں۔ یوں وہ کہیں اور جانے کی جگہ بائیں بازو کی ترقی پسند طلبہ تنظیم ’’ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ میں شامل ہوگیا اور بعد میں جہانزیب کالج کی ڈی ایس ایف کا چیئرمین بن گیا۔
وہ بائیں بازو کی سیاست کا بہت کٹھن دور تھا۔ ایک طرف فوجی آمر کی پروردہ بغل بچہ مذہبی انتہا پسند طلبہ تنظیم، اُوپر سے افغان جہاد کے نام پر اسلام کا نام استعمال کرنے والے ڈالر کماو مذہبی سیاسی پارٹی ہر سچ کو جھوٹ اور ہر حقیقت کو باطل قرار دے رہی تھی۔ ’’افغان ثور انقلاب‘‘ کے خلاف جھوٹے اور مکروہ پروپیگنڈے کر رہی تھی۔ ساتھ ہی کسی بائیں بازو کی تنظیم کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھی۔ ادارے، پیسا اور دباو سب کچھ اُن کے پلڑے میں تھا۔ ایسے وقت میں ایک ترقی پسند طلبہ تنظیم میں شمولیت اور پھر اُس کی قیادت محض ایک کھیل یا بچکانہ فیصلہ نہیں تھا۔ ’’ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ محض سیاسی تنظیم نہیں تھی، بل کہ اس سے کہیں بڑھ کر ایک نظریاتی تحریک تھی، جو طلبہ کے درمیان شعور، آگہی، حقوق، فرائض، جمہوریت، آزادی، بین الاقوامی حالات، معاشی صورتِ حال، استحصال وغیرہ پر سٹڈی سرکل اور مذاکرے منعقد کرتی۔ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی اس جانب بھی بھرپور تربیت اور پرورش ہوتی ۔
غلام فاروق کی تربیت بھی انھی خطوط پر شروع ہوئی۔ وہ غلام فاروق جو کبھی سنجیدگی سے کوئی بات نہیں کرتا تھا، طلبہ کے حقوق پر بڑی سنجیدگی سے بات کرنا شروع ہوا۔ تعلیم مادری زبان میں، سائنسی بنیادوں پر، یکساں بنیادوں پر، تعلیم حق ہے نہ کہ رعایت، تعلیم خالص تعلیم کے معنوں میں، تعلیم کے بعد روزگار کی ضمانت…… یہ وہ موضوعات تھے، جن پر غلام فاروق بولتے ہوئے ’’ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کی نمایندگی کرتے اور دوسرے طلبہ کو ترقی پسند نظریات پہنچاتے۔
خواتین کی ماڈلنگ پر بات کرتے ہوئے کہتے کہ خاتون کو انسان تسلیم کیا جائے۔ ’’سیکس سمبل‘‘ اور تجارتی اغراض کے لیے خواتین کا استحصال بند کیا جائے۔ جنس کی بنیاد پر تفریق ختم کی جائے اور یک ساں تعلیم کے مواقع دیے جائیں۔
ہدایت علی اور ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن نے ایک طرف غلام فاروق کی شخصیت کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا، دوسری طرف وسیع حلقۂ احباب نے محض دوستی میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کو جوائن کیا، جس سے فسطائیت کے علم برداروں کے خلاف ایک موثر پلیٹ فارم میسر آگیا۔
گو کہ چند ہی نظریاتی طلبہ کو جدلیاتی مادیت، سرمایہ دارانہ نظام، قوم پرستی اور نسل پرستی میں فرق پر عبور حاصل تھا، مگر بہ ہرحال ایک مضبوط اور موثر بنیاد میسر آہی گئی تھی۔
یہ لطیف آفریدی، افراسیاب خٹک، مختیار ایڈوکیٹ، شمس بونیری، نعیم ایڈوکیٹ اور جام ساقی کا دور تھا۔ پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹل 2 اور جہانزیب کالج کے فیڈرل ہاسٹل میں کچھ خفیہ، کچھ ظاہری سرگرمیوں کا دور تھا۔ یہ انہدامِ ماسکو سے ذرا پہلے کا دور تھا۔ یہ ببرک کارمل اور نجیب کے ادوار تھے۔ یہاں سے غلام فاروق کو قلم اور کتاب سے حقیقی محبت ہوئی، جس نے آگے بڑھ کر جرنلزم ڈیپارٹمنٹ تک کے اُس کے سفر کو ممکن بنایا۔
چاہے وہ قومی آزادی کی جد و جہد ہو، یا استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی جد و جہد…… غلام فاروق صفِ اول میں نظر آتے۔
غلام فاروق کی صحافتی زندگی بھی بہت اُتار چڑھاو کا شکار رہی۔ مخالفت کی، تو ڈَٹ کر کی ۔ پریس بند ہوا، ویران ہوا، اخبار کی پرنٹنگ ٹول پر شروع کی، کئی سال تک اخبار میں نقصان اٹھایا۔ ماضی کی وابستگی سمجھوتا کرنے سے روکتی رہی، اور مقتدر حلقوں نے اپنا ترجمان بنانا چاہا۔ ایک اندرونی جنگ میں صحت کے سنگین مسائل کما ئے۔ ذیابیطس نے وجود پر دیمک کی طرح حملہ کیا، تو گردوں نے بدن کی صفائی میں رکاوٹ ڈالنی شروع کر دی۔ شدید دباو نے چڑچڑا کر دیا۔ وہ لااُبالی پن، وہ بے اختیار قہقہے لگانے والا اور بے تکان بولنے والا زندہ دل غلام فاروق ’’سپین دادا‘‘بن گیا۔
غلام فاروق اپنے ساتھ ’’ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ میں قاسم کو بھی لے آیا تھا، پھر یہ مل کر جرنلزم میں ساتھ گئے۔ مادی معنوں میں صحافت نہ غلام فاروق کو کچھ دے سکی اور نہ قاسم کو۔
نظریات جب معروض میں علمی جامہ نہیں پہنتے، تو ایک مسلسل اذیت کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسا تمام نظریاتی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی تہذیب، اپنا تقدس، اپنا ایمان، اپنا اعتقاد ایجاد کرلیے۔ پیسا اور منافع ہر قدر سے اوپر قرار پایا، امارات ہر دانش سے بہتر تصور ہونے لگی، علم وہ بہتر قرار پایا جو منافع میں اضافے کرسکے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے اخبارات اور صحافیوں کی حیثیت تبدیل کر دی۔ اخبارات تو ای پیپر میں تبدیل ہوگئے، مگر صحافت یا تو ریٹنگ کے ساتھ سمجھوتا کرکے چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑہائی میں کرگئی یا ڈپریشن کی ادویہ پر اکتفا ہی مقدر ٹھہرا۔
قارئین! غلام فاروق ماضی اور حال کا ایک استعارہ ہے، جہاں نظریات، صحافت کی آب یاری کرتے تھے۔ اب صحافت ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی اور صحافی ایک شو روم کا ورکر بن کر رہ گیا ہے اور یہ وقت کا جبر ہے۔
اب غلام فاروق کا بیٹا عمر فاروق صحافت کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ وہ بچپن ہی سے صحافت کے اُتار چڑھاو اور دباو کو دیکھ چکا ہے۔ چھوٹی عمر میں عمر فاروق، غلام فاروق بن گیا ہے۔ دعا ہے کہ وہ صحافت میں اعلا مقام پالے، آمین!
ویسے صحافت اور صحافی، ریاست کے دور میں بھی تھے۔ڈھیر سارے لوگوں کی گراں قدر خدمات ہیں۔ کچھ اپنے ذوق و شوق کی وجہ سے صحافت میں آئے، کچھ حادثاتی طور پر، جب کہ کچھ نے اخبارات کے کاروبار میں ترقی کرکے صحافت اپنائی۔ ایسے میں غلام فاروق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے پہلے ڈگری یافتہ صحافی ہیں۔
دوم، اُس نے صحافت بہ راہِ راست جرنلزم میں پشاور یونیورسٹی سے پڑھ کر پوسٹ گریجویشن کی۔ دوسروں کی طرح صحافت کے قریبی یا مماثل مضامین میں داخلے لے کر فرضی حاضری لگا کر، جرنلزم کا شعبہ اختیار نہیں کیا۔ ورکنگ جرنلسٹ کے طور پر پرنٹ میڈیا اور بعد میں الیکٹرانک میڈیا سے منسلک رہے۔ رپورٹر سے ایڈیٹر تک کا سفر اپنے بل بوتے پر کیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ سب سے کثیر الاشاعت اخبار کے مالک بن گئے۔
قارئین! غلام فاروق کے انتقال کے بعد اس کے نام کے ساتھ ’’مرحوم‘‘ کا لاحقہ لگانا
اتنا آسان کام نہیں۔ وہ ایک زندگی سے بھرپور شخص تھا۔ میرے سمیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ایک دن اچانک کوچ کرجائے گا۔
مَیں اس کے بیٹے عمر فاروق سے مسلسل رابطے میں رہتا تھا۔ وہ بہت خلوص سے حال احوال بتاتا۔ وائس میسجز پر فاروق سے بات ہوتی، وہ سنتا تو جواب دیتا۔ درجنوں دفعہ سن کر یقین کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ آواز اب کبھی دوبارہ سنائی نہیں دے گی، مگر یقین نہیں ہوتا۔ غلام فاروق سسٹم سے ناراض تھا۔ وہ فٹ نہیں تھا اس سسٹم کے ساتھ۔ وہ باغی تھا۔ وہ جب بھی ملتا، تنقید کرتا۔ مجھے کہتا کہ تم جو لکھتے ہو، سب بکواس ہے۔ کوئی سمجھتا ہے، نہ کوئی عمل کرتا ہے۔ کہتا، مَیں جانتا ہوں یہ کوششیں ساری فضول ہیں۔ یہ کارپوریٹ دنیا ہے۔ یہ سب مادیت کو مانتے ہیں۔ تم انکار کرتے ہو۔ سب تم کو پاگل کہیں گے۔
اور شاید وہ ٹھیک کہتا تھا۔ مَیں جب بھی ملتا، خوب نوک جھونک ہوتی اور آخر میں وہ ہنستے ہوئے کہتا: ’’ساجد امان! تمھاری باتیں سب صحیح ہیں، مگر اخلاقیات میں، کتابوں میں، تصور میں…… حقیقت میں سب غلط ہے۔ تم جو سوچتے ہو، جو کرنا چاہتے ہو، جو بدلنا چاہتے ہو، مَیں اُن تمام مراحل سے گزرا ہوں اور صرف اپنا نقصان کیا ہے۔ کسی کو فائدہ بھی نہیں پہنچاسکا۔ پریس بند کرا بیٹھا۔ اشتہارات گنوا بیٹھا…… مگر تم اپنی بات پر قائم رہنا۔ اپنی ضد پر اڑے رہنا۔ اپنی لڑائی جاری رکھنا۔ اپنے اُصولوں پر قائم رہنا، سمجھوتا نہ کرنا۔ ورنہ خود کو معاف نہیں کر پاؤگے۔ خوش تم اب بھی نہیں ہو اور خود سے بغاوت کرکے بھی خوش نہیں ہوگے۔ نادم بھی رہوگے۔ اپنی بات کرتے رہنا۔ کچھ باتیں تاریخ کے لیے ہوتی ہیں۔ تاریخ پڑھو، سب نے سمجھوتا نہیں کیا تھا۔‘‘
مرحوم کے جنازے میں سیکڑوں افراد تھے۔ بہت رَش تھا۔ وہ اکیلا تھا۔ کبھی ہار نہ ماننے والا ہار گیا تھا، مگر زندگی سے……!
اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے۔ وہ ہمیشہ یاد رہے گا اُن کو بھی جو اُسے بہ حیثیت صحافی جانتے تھے اور اُن کو بھی جو صحافت سے بہت پہلے اُسے ایک مہربان دوست کے طور پر جانتے تھے۔ حق مغفرت کرے،ہمیشہ رشتہ نبھانے کی کوشش کی۔