اپنے گذشتہ کالم ’’چند تاریخی غلطیاں اور اُن کی تصحیح‘‘ میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ آزادی کے 9 سال تک بالواسطہ پاکستان میں تاجِ برطانیہ کا راج رہا اور 23 مارچ 1956ء پاکستان میں آئین نافذ ہونے کے بعد تاجِ برطانیہ کو خدا حافظ کَہ دیا گیا۔
تاجِ برطانیہ کے بعد اُن کے جانشینوں نے پاکستان پر اپنے قبضے کو دیگر طریقوں سے جاری و ساری رکھا۔ دورِجدید کے نظامِ حکومت یعنی جمہوریت میں اُمورِ ریاست چلانے کے لیے حکومت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں۔ انھی تین حصوں کو عُرفِ عام میں ریاست کے تین ستون کہا جاتا ہے۔
ریاست ِ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں جمہوری روایات و اقدارپنپ نہ سکیں۔ 77 سالوں میں آدھا عرصہ غیر جمہوری و غیر منتخب آمروں نے ریاست پر قبضہ جمائے رکھا۔ ان آمروں نے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقننہ یعنی پارلیمینٹ اور عدلیہ کو بھی اپنے اقتدار کی لونڈی بنائے رکھا۔ من مانے عدالتی فیصلے لینا ان کے لیے مشکل نہ تھا اور اسی طرح آمروں کے ہاتھ کے اشارے اور منھ سے نکلے ہوئے الفاظ آئین و قانون کی حیثیت قرار پاتے تھے۔
باقی ماندہ عرصہ یعنی جمہوری ادوار میں غیر جمہوری طاقتوں نے جوڑ توڑ کی سیاست کو برقرار رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو یا پھر عمران خان جیسے سیاست دانوں کی پشت پناہی جاری رکھی۔
پاکستانی جمہوری نظام کی بدقسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے حصول کے لیے انھی طاقتوں کی ضرورت پڑتی رہی، جن کے خلاف وہ میدانِ سیاست میں اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمے داری کا تعین کیا جائے، تو ہم غیر جمہوری طاقتوں اور سیاست دانوں کو ہمیشہ موردِالزام ٹھہراتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی عدلیہ میں بیٹھے نام نہاد منصفوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ یہ پاکستانی عدلیہ ہی تھی کہ جس نے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کو جلا بخشی اور جمہوری حکومتوں کا گلہ گھونٹے والی طاقتوں کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کے لیے بھونڈے دلائل بھی پیش کیے اور آمروں کو آئین میں ترمیم کے حقوق بھی عطا فرمائے۔
آمروں کے ادوار میں ہماری عدلیہ لنگڑی لولی اور بے زبان بیوہ کا کردار ادا کرتی رہی۔ عدلیہ کی جانب سے جمہوری لیڈرشپ کو پھانسیوں، قید و بند کی صعوبتوں سے نوازا جاتا رہا، مگر آمروں کے غیر آئینی اقدامات پر چپ کا روزہ رکھ لیا جاتا۔ جیسے ہی آمروں کا اقتدار زوال پذیر ہوتا، یہی عدلیہ تلواریں نکال کر پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے آئینی اختیارات پر شب خون مارنا شروع کردیتی۔ ماضیِ بعید کو چھوڑیں؛ ماضیِ قریب میں پرویز مشرف کے بعد عدلیہ میں بیٹھے منصفوں نے کس طرح یوسف رضا گیلانی، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، عمران خان اور شہباز شریف حکومتوں اور پارلیمنٹ کے ساتھ سلوک روا رکھا۔
افتخار چوہدری اور ثاقب نثار ایسے منصفوں کا ’’جوڈیشل ایکٹوزم‘‘ بھلایا نہیں جاسکتا، جن کی بہ دولت ریاستِ پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مملکت میں 20 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التو ا تھے، مگر بابا رحمتا ثاقب نثار جیسے منصف اپنے ادارے میں ہونے والی بدعنوانیوں اور سائلین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرنے کی بہ جائے جیل، تھانوں، ہسپتالوں اور دیگر حکومتی اداروں کے انتظامی اُمور میں مداخلت کرتے رہے۔ بابا رحمتا جس کام کی تنخواہ لیتا تھا، اُسے چھوڑ کر ڈیم فنڈ اکٹھا کرتے رہے۔
بدقسمتی سے آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو جواز بخشنے والی عدلیہ جمہوری ادوار میں پارلیمینٹ سے منظور کردہ قوانین کو کالعدم قرار دینے میں بھی پیش پیش رہی۔ جمہوری ادوار میں عدلیہ کی جانب سے من مرضی آئینی تشریحات کرنا معیوب نہیں سمجھا گیا۔
یاد رہے افتخار چوہدری نے پارلیمنٹ کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر 19ویں آئینی ترمیم منظور کروائی۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 175(3) میں واضح درج ہے کہ سال 1987ء تک عدلیہ کو انتظامیہ سے علاحدہ کیا جائے گا۔
اسی طرح آرٹیکل 2-A عدلیہ کی مکمل آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ افسوس یہ آئینی خواب ابھی تک شرمندۂ تعبیر نہ ہو پایا۔ آئینِ پاکستان واضح حد تک ریاستِ پاکستان کے تمام ستونوں کے کردار، افعال، ذمے داریوں اور حدود کا تعین کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے تمام ادارے نہ صرف اپنی آئینی ذمے داریوں سے چشم پوشی کرتے رہے، بل کہ دوسرے اداروں کے آئینی کردار میں بے جا مداخلت بھی کرتے رہے ہیں۔
آج ہم سیاست دانوں کو تو بہت برا بھلا کہتے ہیں، باوجود اس کے سیاست دان ہمیشہ اکٹھے نہیں ہوتے، مگر یاد رہے ہر آمر کے خلاف صرف سیاست دان ہی میدان عمل میں رہے اور جمہوریت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے مسلسل جد و جہد میں مصروفِ عمل رہے۔
آج بھی ریاست کے تینوں ستونوں رسہ کشی کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ اداروں کے اندر بھی باہمی چپقلش کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ سپریم کورٹ ’’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ کے تحت بنی ججوں کی سہ رُکنی خصوصی کمیٹی کی صورتِ حال اور فیض حمید کا کورٹ مارشل تازہ ترین بہترین مثالیں ہیں۔
ریاستِ پاکستان کی موجودہ معاشی، معاشرتی، سیاسی، آئینی اور جغرافیائی صورتِ حال حوصلہ افزا نہیں۔ عدلیہ پارلیمینٹ کو، پارلیمینٹ عدلیہ کو، انتظامیہ پارلیمینٹ اور عدلیہ کو زیرِ نگین کرنے کے درپے دِکھائی دے رہی ہیں۔ مشرقی کے علاوہ مغربی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں۔ اس گھمبیر صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ریاست کے تینوں ستونوں کو آئین پاکستان کی پاس داری کرنا پڑے گی۔ پارلیمانی و سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ملکی سلامتی کے لیے اکٹھا ہونا پڑے گا۔ ورنہ ریاستی ستونوں کی لڑائی کا انجام ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کی سریلی صداکی صورت میں سننا پڑے گا، جب عدلیہ سمیت سب کو سانپ سونگھ جائے گا۔
اللہ کریم پاکستان کو دائمی استحکام نصیب فرمائے، آمین ثم آمین!
پاکستان زندہ باد، پاکستانی ریاستی ستون پایندہ باد!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔