آئی پی پیز کا چکر اور رُلتے عوام

Blogger Ikram Ullah Arif

پرانے وقتوں کی بات ہے، جب غلام اور کنیزوں کو رکھنے کا رواج عام تھا۔ کسی مفلس شخص نے ایک مال دار شخص کے غلام سے معاہدہ کیا۔ معاہدے کی شقوں میں دیگر کے علاوہ درجِ ذیل شرائط بھی شامل تھیں:
٭ اول:۔ غلام بے شک پورا نہیں آدھا دن کام کرے، مگر اس کے آقا کو اجرت پورے دن کی ملے گی۔
٭ دوم:۔ مفلس شخص غلام کی مزدوری کی اجرت اس کے آقا کو دینار میں ادا کرے گا۔
یہ یاد رہے کہ مفلس شخص جس ملک کا باسی تھا، وہاں رائج کرنسی ’’پیسا‘‘ تھی، جب کہ معاہدے کے مطابق اس نے ادائی دینار میں کرنا تھی۔ یہ سلسلہ سالوں سے چلتا رہا۔
مفلس شخص جس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ خود کھانے کے لیے دست بہ سوال رہتا تھا۔ گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے پورے گاؤں میں گداگر مشہور تھا…… اور کچھ ناقدین تو اس حد تک طنز کرتے تھے کہ کشکول کو ہی مفلس شخص کا قومی و ملکی نشان قرار دیتے تھے۔ ظاہری سی بات ہے کہ ان حالات میں کسی شخص کے اوقات ایسے ہوتے نہیں کہ مزدور رکھے، وہ بھی ایسی شرائط پر جو اوپر رقم کی گئی ہیں۔
مجھے امید ہے آپ نے ایسے کسی شخص کو دیکھا بھی نہیں ہوگا، جس نے ایسی حرکت کی ہوگی۔ اگر کہیں ایسا کوئی ’’فاتر العقل‘‘ ملا بھی ہوگا، تو آپ یقینا حیران ہوئے ہوں گے۔ کیوں کہ ایسا کام کوئی کیوں کر کرسکتا ہے؟ لیکن ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ عوام کو اندھیروں سے نکالنے کے لیے ایسے ہی اندھیرے میں رکھ کر ’’آئی پی پیز‘‘ (بجلی پیدا کرنے کے آزاد کارخانے) کا دھندا شروع کیا گیا ہے۔
1994ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت میں یہ سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور اُس وقت کے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوگئے تھے، جس میں قوم کو ’’خوش خبری‘‘ سنائی گئی تھی کہ اب اندھیروں کا سفر ختم ہونے والا ہے۔ عوام کو کیا خبر تھی کہ یہ سلسلہ ہی دراصل اندھیروں کا ایسا جال بن جائے گا، جس سے نکلنے اور نکالنے کا راستہ ہی میسر نہیں ہوگا۔
بینظیر بھٹو کی حکومت میں پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ لوگوں نے اس کاروبار میں پیسا لگایا اور جواباً بے تحاشا مال کمایا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا، تو ن لیگ کی حکومتوں میں بامِ عروج پر پہنچا اور خود آج کے وزیرِ اعظم محترم شہباز کے فرزندِ ارجمند سلیمان شہباز نے بھی اسی کاروبار کو اپنایا۔ یہ کاروبار غلط نہیں، مگر اس کے لیے جو معاہدے کیے گئے ہیں، وہ انتہائی کرب ناک، بل کہ ملک اور قوم دشمن ہیں۔
ان معاہدوں میں دیگر شرائط کے علاوہ درجِ ذیل دو تو تباہی کے وہ بم ہیں، جو ملک و قوم کی بنیادوں کو ہلانے کے لیے رکھے گئے ہیں:
٭ پہلی شرط:۔ کیپیسٹی چارجز، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کارخانے کی پیداواری صلاحیت 100 یونٹس یومیہ ہے، لیکن حکومت اس سے 30 یونٹس یومیہ خرید رہی ہے، تو معاہدے کے مطابق حکومت پر لازم ہے کہ ادائی 100 یونٹس کی کرے، جو کہ کررہی ہے۔
٭ دوسری شرط، اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہے۔ وہ یہ کہ حکومت ادائی مقامی کرنسی میں نہیں، بل کہ ڈالروں میں کرے گی، جو کہ آج بھی کررہی ہے۔
اب یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ایک ایک ڈالر کے لیے ہماری حکومت اور ریاست در بہ در کشکول ہاتھ میں لیے گھوم رہی ہے۔
دوسری طرف مگر یہ سب ڈالر اُن کارخانوں کے مالکوں یا ساہوکاروں کی جھولی میں ڈالے جا رہے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حکومتوں کے علاوہ کچھ اہم اداروں نے بھی اس گورکھ دھندے میں شامل ہوکر ملک و قوم کی بربادی میں اپنا پورا پورا حصہ ڈالا ہوا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ آج کل بجلی کے بل اتنے زیادہ آرہے ہیں کہ لوگ آخرِکار پوچھنے پر مجبور ہوہی گئے ہیں۔
درد ناک صورتِ حال ہے کہ کہیں زیادہ بل آنے پر بھائی سگے بھائی کو قتل کرتا ہے، تو کہیں آپریشن کے لیے پیسے جمع کرنے والی خاتون جب بجلی کا بِل دیکھتی ہے، تو خُود کشی پر مجبور ہوجاتی ہے۔
علاوہ ازیں یہ ایک اچھی بات ہے کہ جماعتِ اسلامی نے شہرِ اقتدار کے قریب اسی معاملے پر دھرنا دے کر عوام کی اکثریت تک یہ بات پہنچا دی کہ ان ’’آئی پی پیز‘‘ نے آج تک کتنا بڑا ڈاکا ڈالا ہے۔
اگر یہ سلسلہ چلتا رہا، تو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا حد کوئی نہیں ہوگا۔ گیس اور بجلی کے ماہر انجینئر ایک دوست جو گذشتہ کئی دہائیوں سے ان معاملات میں دیارِ غیر میں برسرِ روزگار ہیں، کا کہنا ہے کہ اگر ’’آئی پی پیز‘‘ کا مسئلہ بروقت درست طریقے سے حل نہیں کیا گیا، تو ٹھیک پانچ سال بعد پاکستان میں بجلی کا استعمال جاگیرداروں اور سرمایہ داروں تک مخصوص ہوجائے گا۔ کیوں کہ قیمتیں اتنی بڑھ جائیں گی کہ عام شہری برداشت ہی نہیں کرسکے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے