قرقاش زندہ باد! (فلسطینی ادب)

Muhammad Iftikhar Shafi from Sahiwal

مترجم: محمد افتخار شفیع (ساہیوال)
نوٹ:۔ یہ افسانہ انگریزی سے ترجمہ شدہ ہے۔
عدالت کی کارروائی ایک دور افتادہ گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہوئی۔ یہ کمرا مستطیل شکل کا تھا اوراس میں ایک گول میزاورچندکرسیوں کے سوا اورکچھ نہ تھا۔ کمرے میں موجود واحد میز پر قرآن مجید اور بائبل کا ایک ایک نسخہ رکھا تھا۔ کمرے کی عقبی دیوار پر پیتل کی ایک تختی آویزاں تھی جس پر جلی حروف میں درج تھا: ’’اعلا حکومت کا ایک اصول: عدل اورانصاف۔‘‘
اس اجلاس کی کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی۔ کمرائے عدالت میں موجودسبھی مشتبہ لوگ تھے۔ سیکورٹی زون کے قریب ہونے کی وجہ سے گاؤں کے عام لوگوں میں سے کسی کو یہاں آنے کی اجازت نہ تھی۔ ایسے لگتاتھا جیسے عدالتی اہل کار حاضرین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کررہے ہیں۔ وہ ایک عربی کہاوت ہے کہ ’’تماشائی بھی ایک تماشا ہوتا ہے۔ کسی ایک کی مصیبت دوسرے کے گلے بھی پڑسکتی ہے۔‘‘ ملزمان کے نام پکارے گئے :
شلوموبن ہیم، گدالیہ شیمتوو…… حاضرہوں!
کمرے میں موجود لوگوں کے لیے یہ خاصی حیرت انگیز بات تھی۔ اب تک تویہ عدالتوں میں صرف عربوں کے نام سننے کے عادی تھے۔ اوراب یہاں ایک نہیں بلکہ دو دو ملزم…… یعنی یک نہ شد دو شد۔ یہ توکمال ہوگیا۔ جج نے ملزمان سے سوال پوچھا: ’’تم کہاں سے ہو؟‘‘
’’گوتاڈا سے!‘‘ ملزم نے جواب دیا۔
’’تمھیں پتا توہے، اس علاقے میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ پھر تم پرمٹ کے بغیر یہاں کیوں آئے؟‘‘ جج نے پھرسوال کیا۔
’’ہماری گائے گم ہوگئی تھی۔ اُسی کو تلاش کرتے ہوئے غلطی سے اس علاقے میں آگئے ہیں جناب! ہمیں خوف تھا کہ گائے کہیں غلطی سے آپ کے علاقے میں نہ داخل ہوجائے، لیکن وہی ہواجس کا ڈر تھا۔‘‘ ملزمان نے ایک ساتھ جواب دیا۔
’’ایک ایک کرکے بات کرو۔ پہلے تم بولو شلومو! کیاتمھاری گائے دودھ دیتی ہے؟‘‘ جج نے ڈانٹ پلائی۔
’’بالکل دودھ دیتی تھی جی۔ اس کا گم ہوجانا بہت نقصان دہ ہے۔ گائے کے دودھ سے ڈیری کی اشیا بنتی ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں۔ دودھ کے بغیر ہمارے بچوں کی صحت کوشدید خطرہ لاحق ہوگا۔‘‘
’’مَیں سمجھ گیا۔ مارشل کوڈ کی ساتویں شق کے مطابق عدالت حکومتی قانون کے مطابق گائے کو توکوئی سزانہیں دے سکتی۔ البتہ ملزمان کو اُن کی ذمے داریوں سے بری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تمھیں ایک سو پنس جرمانے کی سزاسنائی جاتی ہے۔‘‘
دیگر متعلقہ مضامین: 
ثبوت کے کاغذ (چیک ادب) 
نَٹ بے حد اہم ہے (روسی ادب) 
ایک ہی کوکھ (موزمبیقی ادب) 
میرا یار ابو حسن (فلسطینی ادب) 
دو جنرل اور ایک عام آدمی (روسی ادب) 
عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا، تو شلومو اور گدالیہ کے چہروں پرخوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جرمانے کی رقم ادا کرتے ہوئے اُنھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خفیف اورپُراَسرار سی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ اس دوران میں عدالتی اہل کار نے آوازلگائی: ’’احمدحسین سعید، احمدحسین سعیدالفہماوی!‘‘
عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے ملزم کوہلکی سی ٹھوکرلگی۔ اُسے پہلی بارعدالت میں پیش کیاگیاتھا۔
’’ہاں بھئی! کیا عمر ہے تمھاری؟‘‘ جج نے سوال کیا۔
’’جی حضور، پندرہ سال۔‘‘ ملزم کے چہرے پر خوف کے آثارتھے۔
’’تمھیں ذکرون الیعقوب کے علاقے میں داخلے کی ہمت کیسے ہوئی؟ کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ دوسال پہلے یہاں تمھارے جیسے ایک مزدور کی آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ اگرایسا کوئی حادثہ تمھارے ساتھ بھی پیش آگیا تو……!‘‘ جج عدالتی اہل کارکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا: ’’اس کے باپ کوبلاؤ۔‘‘
80، 85 سال کا ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ عدالت کے کٹہرے میں آکر کھڑا ہوتا۔ جج نے غصیلے انداز میں سوال کیا: ’’تم نے اسے کیوں جانے دیا؟‘‘
مَیں ایک ضعیف اور معذور آدمی ہوں۔ میرا خاندان 7 افراد پرمشتمل ہے۔ یہ لڑکا جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، عمرمیں سب سے بڑا ہے۔یہ کام نہ کرے، تو گھرکاچولھا نہیں جلتا جناب!‘‘
جج نے اُس کی بات بڑے غور سے سنی۔ اُس کے بعداُس نے حکومتی قانون کی روسے عدالت کا فیصلہ پڑھ کرسنایا: ’’عدالت سمجھتی ہے کہ ملزم کا باپ بے قصور ہے۔ اس لیے بیٹے کو 40 پاؤنڈجرمانے یا 20 دن قیدِ بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔‘‘
چاروں طرف خاموشی اور سناٹا چھا گیا۔
’’خالد قاسم ملاہا حاضر ہو!‘‘
یہ آج کی عدالتی کارروائی میں تیسرا کیس تھا۔ جج نے ملزم کی بجائے اُس کے باپ کو آواز دی۔ باپ حاضرہوا، توجج نے اُس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’’تمھارا بیٹا پرمٹ کے بغیرحیدرہ میں کیا کرنے گیاتھا؟‘‘
’’مَیں ایک معذور شخص ہوں۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، میری ایک ٹانگ نہیں ہے۔ مَیں کوشش کے باوجود اسے روک نہیں سکتا۔‘‘ باپ نے جواب دیا۔
’’ہاں ہاں، تم اسے کیسے روک سکتے ہو۔ بالکل سچ کہتے ہو تم، شاباش! اچھا تمھیں چالیس پاؤنڈجرمانے یا دس دن قیدِ بامشقت کی سزا دی جاتی ہے، ٹھیک ہے؟‘‘
اُس وقت دوپہر کے 12 بج کر 45 منٹ ہوچکے تھے۔ جج کے چہرے پرتھکاوٹ کے آثارنمایاں تھے: ’’اب ہم ام لقطف کے حسن طاہرحسن کا کیس دیکھیں گے۔‘‘
’’می لارڈ! میرا گائے کی گم شدگی کا مسئلہ تھا۔ وہ کہیں کھو گئی تھی۔‘‘حسن بولا۔
’’مَیں اپنے نقصان کے بارے میں پولیس اسٹیشن کے علاوہ اور کہاں شکایت کرسکتا تھا۔ ہماری آبادی تھانہ کرکور کی حد میں شامل ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ پولیس اسٹیشن ممنوعہ علاقے میں ہے، لیکن وہاں جانے کے لیے اجازت نامے کی ضرورت نہیں۔ مَیں گیا اوروہاں گرفتارکرلیاگیا۔‘‘
’’توکیا تمھاری گائے مل گئی تھی؟‘‘ جج نے سوال کیا۔
’’جی مل گئی تھی۔ اُسے انتظامیہ نے کانجی ہاؤس میں بند کردیا تھا۔‘‘ حسن نے جواب دیا۔
جج نے تھوڑے توقف کے بعد فیصلہ سنایا: ’’10 دن قید یا 20 پاؤنڈجرمانہ!‘‘
اِس سے توبہتر تھا کہ حسن کی گائے اُسے نہ ملتی۔ کیوں کہ اُس کی قیمت جرمانے کی رقم سے آدھی تھی۔ حسن سے کھل کر اپنے غم کا اظہار بھی نہ ہوسکا۔ کیوں کہ یہاں قرقاش کا قانون چلتا تھا۔
(قرقاش ایک قدیم مصری حاکم تھا۔ اُس کے دور کے مصرمیں جنگل کا قانون رائج تھا۔ عرب دنیا میں قرقاش کی ناانصافی ایک مثال ہے۔)
٭ مصنف کا تعارف:۔ محمد خاص (Muhammad Khas) 1928ء میں ابراہیم علیہ السلام سے منسوب شہر الخلیل میں پیداہوئے۔ والدین بچپن ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ پرورش چچا نے کی۔ 1948ء میں صہیونی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد لبنان ہجرت کرگئے۔ اپنے تعلیمی مراحل وہاں طے کیے۔ عربی کے اہم کہانی نویس ہیں۔ اُن کے ہاں تاریخ اور فلسفے سے استفادے کی صورتیں بھی ملتی ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں ایک خوب صورت تلمیحاتی ماحول دیکھاجاسکتاہے۔ عربی کے اہم کہانی نویسوں اور رپور تاژ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ طویل عرصے تک صحافت کے شعبے سے منسلک رہے۔ تحریریں ’’روزنامہ الاتحاد‘‘ میں تواتر سے شائع ہوتی تھیں۔ اسرائیل میں رہنے والے عربوں کی زندگی کے دکھوں کوبڑی مہارت سے اپنی کہانیوں میں جگہ دی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے