ایک زما نہ تھا کہ پی پی پی مقتدر حلقوں کے نشانے پر ہوا کرتی تھی اور اس کی لیڈر شپ کو زِندانوں،اذیتوں اور جَلا وطنیوں کے ناقابلِ برداشت جبر کوسہنا پڑتا تھا۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر کوئی ایسا موقع نلاش کیا جاتا تھا جس میں پی پی پی کو پھانسا جائے اور اس کے لیے اقتدار کی منزل کو مزید دور کیا جائے۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ اب بھی پی پی پی کو ایک موٹے تازہ شکار کی طرح جال میں پھنسانے کا عادی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی معیت میں ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی، جس پر مقتدر حلقوں کی نوازشوں کی ایک ناختم ہونے والی داستان ہے۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
اس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا، اُسے کوئی صاحبِ شعور عدل و انصاف کا نام نہیں دے سکتا۔ مسلم لیگ (ن) نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جس طرح کا رویہ اپنایا اور اُن کے خاوند آصف علی زرداری کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا۔ کوئی بھی انصاف پسند شخص اُس کا دفاع نہیں کرسکتا۔ نفرت کی اسی سیاست کا سلسلہ تھا جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔
پی پی پی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری اس طے شدہ نفرت کے خلاف ایک نئی سوچ لے کر میدان میں نکلے ہوئے ہیں۔ وہ سیاسی مخالفین کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک روا رکھنے کے خلاف ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کا راستہ روکنے کے لیے متحرک ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ اُنھیں یقین ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی گود میں سیاسی تربیت پانے والا انسان نفرت اور انتقام سے دست کش نہیں ہوسکتا، جب کہ لیگی قیادت کی تقا ریر بھی نفرت کو ہوا دے رہی ہیں۔ پاکستان ابتری کے جس دہانے پر کھڑا ہے، نفرت اور انتقام کی سیاست اُس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اِس وقت مفاہمت اور مصالحت کی ضرورت ہے اور یہی بلاول بھٹو زرداری کی نئی سوچ کا ماحصل ہے۔ کیا قوم اُن کی نئی سوچ کو حقِ قبولیت بخشے گی؟
عقل و دانش سے عاری قیادت جب ملک پر مسلط کر دی جاتی ہے، تو پھر نتیجہ وہی نکلے گا جو اَب ہمارے سامنے ہے۔ معیشت، سیاست، بینکاری، معاشرت اور عالمی سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لیے جس فہم و فراست کی ضرورت ہوتی ہے، مارشل لائی قیادت اُس سے بالکل تہی دامن ہے۔ خود کو عقلِ کل سمجھنے والی قیادت عوامی اُمنگوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو تی ہے۔ لہٰذا ملکی بقا داو پر لگ جاتی ہے۔ مال و دولت سے کسی کو عقل و دانش کا تحفہ تو عطا نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ تو ایک خدا داد صلاحیت ہو تی ہے، جو کسی انسان کو ودیعت کر دی جاتی ہے۔ اگر عقل و دانش بکاو مال ہوتی، تو دنیا کے سارے امرا ہی اپنے سر پر فلاسفری اور دانش وری کا تاج پہن لیتے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
ابراہام لنکن جیسا خانہ بہ دوش انسان اپنی فہم و فراست سے عا لمی سیاست کا ایک ایسا چمک دار ستارہ بن جاتا ہے، جس کی چمک دمک وقت کا بے رحم ہاتھ بھی ختم نہیں کرسکا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک ایسا ہی ستارہ تھا، جو آسمانِ سیاست پر پوری آب و تاب سے چمکا اور ملکی سیاست کو بامِ عروج تک لے گیا۔ اُس کی دانش اور اُس کی فہم و فراست کی دنیا گرویدہ تھی۔ جب وہ بولتا تھا، تو مخا لفین بھی دنگ رہ جاتے تھے۔ اُس نے سیاست کو جو آہنگ عطا کیا، عوام اُس کے گرو یدہ تھے۔ اُس کی عطا کردہ عوامی سیاست کا ایسا دل کش آہنگ جو کئی عشروں کے بعد بھی ہماری سیاست کا طرہِ امتیاز ہے، لہٰذا دولت اور پیسے کی سیاست کرنے والے عوامی سیاست کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔
اب سیاست گالی گلوچ اور عامیانہ انداز کی ایک ایسی بنسری بن چکی ہے جس سے عوام متنفر ہوچکے ہیں۔ہمارے ہاں ایک نئی روایت جنم لے چکی ہے کہ ہر وہ جماعت جو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے سے انکار کر دیتی ہے، اُس کا جینا حرام ہوجاتا ہے ۔کئی وزرائے اعظم اس سوچ کی بھینٹ چڑھ چلے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
اب کی بار ووٹ اپنے ضمیر کو دیں
عمران خان مکافاتِ عمل کا شکار
بول زُباں اب تک تیری ہے
انتخابی تنازعات اور تصفیے
اصلی، نسلی اور فصلی
اسٹیبلشمنٹ ایک زندہ حقیقت ہے اور اُس کی منشاکے بغیر اقتدار کا ہما کسی سر پر نہیں بیٹھ سکتا۔ پی پی پی کے ساتھ جس طرح کا جانب دارانہ رویہ ر وا رکھا گیا تھا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو کر پشن کے الزامات پر فارغ کیا گیا، تو محترمہ بے نظیر بھٹو سپریم کور ٹ میں اپیل کرنے کے حق میں نہیں تھیں، لیکن دوستوں کے اصرار پر ایک اپیل دائر کی گئی اور اس اپیل کے فیصلے کا اعلان عین انتخابات سے ایک روزقبل کیا گیا، جس میں کرپشن کو جائز ٹھہرایا گیا اور یوں پی پی پی کو عدالتِ عظمی کے پلیٹ فارم سے جس طرح رسوائی کاسامنا کرنا پڑا۔ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ پی پی پی وہ انتخاب ہار گئی اور اسے صرف 17 سیٹییں ہی مل سکیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایسے تمام یک طرفہ فیصلوں کو گنگرو کورٹ سے تشبیہ دیا کرتی تھیں، جس پر پی پی پی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اپریل 1993ء میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت کرپشن کے الزامات پر تحلیل ہوئی، لیکن سپریم کورٹ نے اُن کی حکومت کو بحال کر دیا، جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے چمک کی پھبتی کسی تھی، جس پر ایک طوفان برپا ہوگیا، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے الفاظ واپس لینے سے انکار کر دیا۔ یہ ایک ننگا سچ تھا کہ من پسند افراد اور ذاتی مخالفین کے لیے علاحدہ علاحدہ قوانین تھے، لیکن نقار خانے میں توتی کی آواز کون سنتا ہے؟ اسمبلی پھر بھی تحلیل کرنی پڑی۔ کیوں کہ صدر غلام اسحا ق خان اور میاں محمد نواز شریف کی مخاصمت کے بعد ریاست کا چلنا ناممکن ہوگیا تھا۔ یہی وہی انتخا بات تھے، جن میں پی پی پی نے واضح برتری حاصل کی اور مسلم لیگ (جونیجو) کے ساتھ مل کر پنجاب میں اپنی حکو مت قائم کی۔
اب ایک دفعہ پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ایک مخصوص جماعت اسٹیبلشمنٹ کے جبر کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور عدلیہ اس میں پوری معاونت فراہم کر رہی ہے۔ سیاہ داغ عدلیہ کی پیشانی کو مزید بد نما بنا رہے ہیں۔
ایک ہفتے کے اندر تین اہم مقدمات کا فیصلہ عوام کو ہضم نہیں ہورہا۔ انتخابی نشان کا چھن جانا اورانتخابی عمل سے مخصوص جماعت کو محروم کرنا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ جس طرح کا سلوک مذکورہ مخصوص جماعت کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے، وہ عدلیہ کے علاوہ سب کو نظر آ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کے چیئرمین کے علاوہ ہر فرد دیکھ رہا ہے کہ جانب داری کی انتہا ہو گئی ہے، لیکن اُنھیں یہ جانب داری نظر نہیں آ رہی۔ لہٰذا وہ اس جانب داری پر کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ حیف کہ ایک اَن پڑھ انسان حالات کا جبر دیکھ رہا ہے، لیکن سب سے بڑے عہدوں پر فائز چند افراد یہ سب کچھ دیکھنے سے قاصر ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کو 2017ء میں سپریم کورٹ نے نا اہل کیا۔اُن کو 100 سے زیادہ پیشیاں بھگتے کے بعد سزا سنائی گئی، لیکن پھر پلیٹلیٹس کی کمی کے باعث وہ لندن سدھار گئے اور یوں 4 سالوں کے بعد اُن کی واپسی پر اُن پر قائم سارے مقدمات ایک ہفتے کے اندر ختم کر دیے گئے اور اب وہ اسٹیبلشمنٹ سے کسی خفیہ سمجھوتے کے تحت وزیرِ اعظم کے امیدوار قرار پاچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ عدالتی نظام جو 100پیشیوں کے بعد اپنا صادر کردہ فیصلہ خود ہی ایک سمجھوتے کے بعدایک ہفتے کے اندررول بیک کر دے اور ایک سزا یافتہ مجرم کو سب سے بڑے عہدے کے لیے اہل قرار دے دے، تو مجھے بتایا جائے انصاف کا خون کسے کہتے ہیں؟
اگر انتخابی عمل کی روح یہی ہے کہ سمجھوتوں سے ہی اقتدار کا فیصلہ ہو نا ہے، تو پھر الیکشن کی بساط بچھانے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ الیکشن تو عوام کی آزادانہ رائے کا نام ہے، لیکن اگر آزادانہ رائے کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو، تو ساری مشق بے کار تصور ہوگی اور عوام کا انتخابی عمل سے اعتبار اُٹھ جائے گا۔ صاحبِ دانش افراد کو تو غیر جانب دار، شفاف اور آزادانہ انتخابات نظر نہیں آرہے۔ کیوں کہ عوام کو انتخاب کا آزادانہ ماحول مہیا نہیں کیا جا رہا۔ لوگ چہ مگو ئیاں کر ہے ہیں کہ سب کچھ فکسڈ ہے۔جس کو جتوانا ہے، اُسے جتوا دیا جائے گا اور جس کوہروانا مقصود ہے، اُسے ہروا دیا جائے گا۔ کیا من پسند افراد کی جیت مسائل کا حل ہوگی…… ؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔