پرانے دور میں پختون معاشرہ میں خواتین کا گلے کا کئی قسم کا زیور تھا، جس میں دواگو، امیل، نامہ، چغاول، چندنڑ ہار، لونگین اور اس قبیل کا دیگر زیور شامل تھا۔ مذکورہ زیورات خواتین گلے میں ڈالتیں اور یہ ناف تک جھولتے دکھائی دیتے۔ یہ تمام زیورات اب نایاب ہیں۔ ان میں سے بعض کے حوالہ سے تلاشِ بسیار کے بعد تین یا چار ٹپے ہاتھ آئے ہیں۔ اس حوالہ سے سناروں سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہیں، تو وہ بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ہاتھ آنے والے ٹپوں سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہ گلے کی خوبصورتی بڑھانے کی خاطر پہنے جانے والے زیورات تھے۔ جیسا کہ چغاول یا جغاول کے حوالہ سے ایک ٹپہ ہے کہ
د چغاول مزے دی لنڈ کہ
لکہ گواخ گرندے د سینی مینز لہ رازینہ
گلے میں دوسرا پہنا جانے والا زیور ’’دواگو‘‘ تھا۔ اس کے بارے میں کسی کو علم نہیں کہ بناوٹ کے لحاظ سے یہ کیسا تھا؟ اس طرح اس کے بارے میں بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ یہ سونے کا بنا ہوا ہوتا تھا یا چاندی کا اور اس کی کتنی اقسام تھیں؟ اس حوالہ سے صرف چار ٹپے ہاتھ آئے۔ یہ ذکر اگلی جگہ آئے گا، لیکن سرِ دست دواگو کے حوالے سے ایک ٹپہ پیشِ خدمت ہے کہ
دَ پسرلی دَ سیلہ راغلہ
دَ دواگو امیل ئی لگی پہ ورنونہ
گلے میں پہنے جانے والے زیورات میں ایک اور قسم’’امیل‘‘ کہلاتی تھی (میرے ناقص علم کے مطابق ’’امیل‘‘ کے لئے اردو میں موزوں ترین لفظ ہار ہے، مترجم)۔ پختو زبان کے بڑے محقق پروفیسر محمد نواز طائر صاحب ’’امیل‘‘ کو پختونوں کے زیورات کا بادشاہ (د پختنو د کالو باچا) کہتے ہیں۔ اس قسم کا ’’امیل‘‘ سونے سے بھی تیار ہوتا تھا، پھولوں سے بھی، کوتی لعل (اس کے لئے حیاتیات میں withania somnifera اور فارسی میں ’’کاکنج‘‘ مستعمل ہے، مترجم) اور مرجان سے بھی تیار ہوتا تھا۔ ایک ’’امیل‘‘ کو ’’چندنڑ ہار‘‘ کہتے تھے جو چندن (فیروز اللغات میں چندن کا متبادل لفظ صندل ہے، مترجم) کے دانوں سے تیار ہوتا تھا۔ اس طرح پختون خواتین کے گلے کی زینت بننے والے زیورات میں سے ایک ’’لونگین‘‘ بھی تھا۔ لونگین دراصل لونگ کے دانوں سے تیار ہوتا تھا۔ لونگ کے پودے کا دانہ بڑا خوشبو دار ہوتا ہے۔ اس کا رنگ گہرا کالا ہوتا ہے۔ ایک عرصہ سے ادویائی جڑی بوٹیوں میں اس پودے کا استعمال ہوتا ہے۔ لونگ، دانت کے درد کے لئے بطورِ خاص استعمال ہوتا ہے اور مصالحہ میں اس کا عام استعمال آج بھی رائج ہے۔ اکثر علاقوں میں سہاگ رات کو دولہے کے کمرے میں لمبی لڑی میں لونگ کے دانوں کو پرویا جاتا ہے، جس کو بعد میں کمرے کے اندر لٹکا دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً کمرہ لونگ کی بھینی بھینی بو سے معطر رہتا ہے۔لونگ کے پودے کی اَدھ کھلی کلیوں سے جو ہار ریشمی تار میں پرویا جاتا تھا، اسے ’’لونگین‘‘ کہتے تھے۔’’لونگین‘‘ ہار کا استعمال بھی اب متروک ہوچکا ہے۔ لڑکیوں کے گلے کا ذکر شدہ ہار ٹپہ میں لڑکے یا لڑکی کے منھ سے ہر شکل اور انداز میں ذکر ہوا ہے۔ لونگین کا ذکر گویا عاشقوں کے مشامِ جاں کو معطر کرتا۔
پختون معشوق بھی عجیب ہوتی ہے، بسا اوقات لونگین بھی اس کے گلے کا ہار رہتا ہے اور عاشق بھی۔ اگر پیزوان (ناک کا زیور، مترجم) لبوں کی دربانی کا فرض ادا کرتا ہے، تو ’’لونگین‘‘ گلے کا چوکیدار ہے۔ کبھی ’’لونگین‘‘ رقیب بن جاتا ہے ’’اوگئی‘‘ کا، اور دونوں کے درمیان ایک طرح سے لڑائی شروع ہوجاتی ہے یا پھر سرخ و سپید سینہ اور کالا خوشبودار لونگین دونوں مل کر عاشق پر قیامت ڈھا دیتے ہیں۔ کبھی کبھار ’’ٹیک‘‘ (سر کی زینت بننے والا زیور، مترجم) بادشاہ بن جاتا ہے، تو ’’لونگین‘‘ گویا رسالدار کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اکثر تو رومانیت کی ہر حد پھلانگ دی جاتی ہے، تبھی تو کہتے ہیں کہ
ٹینگہ می مہ نیسہ پہ غیگ کی
سبا بہ بوئی د لونگین در زنی زینہ
ٹپہ میں یہی ’’لونگین‘‘ ہے، جس کا لڑکے یا لڑکی کے منھ سے ہرانداز میں ذکر ہوا ہے۔ چاہے وہ مکالماتی انداز ہو یا رومانوی۔ بعض جگہوں میں اس سے حماسی رُخ بھی ظاہر ہوتا ہے، جیسے کہ
دخمن پہ سرو گولو کی پٹ کڑہ
کہ کارتوس خلاص شی لونگین بہ گانڑہ کڑمہ
پختون سماج میں اکثر کالی رنگت کے حامل شخص کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس بات کی غمازی ایک ٹپہ میں کچھ اس انداز سے ہوتی ہے، لیکن یہاں کالی رنگت کو وقعت دی گئی ہے، جیسے
ماتہ د تورو غیبت مہ کڑہ
تور لونگین دے پہ سینہ وھی ٹالونہ
یاری د تور ھلک مزہ کہ
تور لونگین دے سرداران ئی بویوینہ
باقی میں اسے پڑھنے والوں پر چھوڑ دیتا ہوں کہ ذیل میں ذکر شدہ ٹپوں کو جو لونگین کے حوالہ سے ہیں، کس نظر سے دیکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ (تحریر کی تنگ دامنی کے پیش نظر یہاں چند ٹپے نمونہ کے طور پر حاضر خدمت ہیں، مترجم)
پہ سینہ یو لالے زائیگی
زہ لونگین او مئین دوانڑہ زایوومہ
تور لونگین راتہ تیار کڑیٔ
سپینہ سینہ باندی لونگ مزہ کوینہ
ٹیک دی بادشاہ خال دی وزیر دے
تور لونگین دی پہ سینہ وھی ٹالونہ
ٹینگ بہ دی وتڑم پہ زلفو
پہ لونگین بہ دی وھم چی مڑ دی کمہ
د لونگین بہ دی زونڈے شم
د ھلکانو بہ دی پٹ ساتم مئینہ
د لونگین پہ لڑ راخیژہ
پہ سینہ شپہ کڑہ اوخورہ سری شنڈی لعلونہ
راشہ زما د پلار نوکر شہ
تور لونگین بہ پہ چیلم کی درتہ گدمہ
ماتہ د تورو غیبت مہ کڑہ
تور لونگین دے پہ سینہ وھی ٹالونہ
یو خو دی خلہ دہ غونڈہ منڈہ
بل پہ سینہ دی لونگین ٹالئی وھینہ
تور لونگین پہ ژڑا راغے
سپینہ اوگئی پہ سینہ زائے نہ راکوینہ
مزے دَ تا دی لونگینہ
چی د لیلا پہ سینہ پاس وھے ٹالونہ
حافظ الپوریٔ ایک شعر میں لونگین کے حوالہ سے کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ
چی ئی زخم د سوزن قبول کڑو بل ئی قید د مزی
ھلہ پہ سینہ زائے موھیہ شو لونگین تہ
(نوٹ:۔ یہ تحریر شاہ وزیر خان خاکیؔ کی پختو کتاب ’’پہ ٹپہ کی مادی فوکلور‘‘ سے لئے گئے اقتباس ’’لونگین‘‘ کا اردو ترجمہ ہے، مترجم)