قومیت کے دو تصور ہیں۔
ایک مغربی تصور جس کے تحت ایک ملک کے رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں۔ مثلاً: امریکی قوم، فرانسیسی وغیرہ۔
دوسرا اسلام کا تصور، جو قومیت یا سرحدوں کا محتاج نہیں۔ اس تصور کے تحت پوری دنیا کے مسلمان ایک قوم ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ہم پاکستانی وہ بدقسمت لوگ ہیں جو قومیت کے دونوں تصورات میں سے کسی ایک پر بھی پورا نہیں اترتے۔ اگر اسلامی تصورِ قومیت کے تحت دیکھا جائے، تو پوری دنیا میں مصیبت زدہ مسلمانوں کے حق میں قراردادِ مذمت سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ ہم تو اپنے کشمیری بھائیوں پر مظالم کو دیکھ کر بھی اپنی قومی غیرت کو نہیں جگا پائے۔ اس لیے کہ ہم ایک قوم ہیں ہی نہیں۔ بطورِ پاکستانی ہم مختلف مذہبی، سیاسی، صوبائی، لسانی اور دیگر بہت سے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کابل میں چبھنے والے کانٹے کو ہندوستان کے جوان اور بزرگ کے لیے بے چینی کا سبب بنا دیا تھا۔ اب ایک ہی ملک میں رہنے والے ہم لوگ اُخوت و قومیت سے محروم ہیں۔ ہر کوئی انفرادی سوچ لے کر دوسروں کو لوٹنے کے چکر میں ہے۔ اخلاقی اقدار کی پاس داری قصۂ پارینہ بن چکی۔ اب تو ہر کوئی دہاڑی لگانے کے چکر میں ہے۔ قومی احساس کو نشہ پلا کر ہم نے گہری نیند سلا دیا ہے۔ ہماری اقدار دیگر قوموں نے اپنائیں، اور عروج پاگئے۔ ہم نے بطورِ قوم اپنی اصل سے دوری اختیار کرکے پستی ورسوائی کو اپنا مقدر بنا لیا۔ ایک واقعہ پڑھ لیجیے، تاکہ آپ کو پتا چلے کہ کس طرح اعلا اقدار کو اپنا کر قومیں عروج پاتی ہیں۔ یہ واقعہ ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب کے شکوے کے ساتھ پیش ہے:
’’بہت عرصہ پہلے ایک دوست پڑھائی کے سلسلے میں آسٹریلیا گئے، تو اُنھوں نے مجھے اسٹریلیا کی ایک بات بتائی۔ بات بہت خوب صورت ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ اُنھیں آسٹریلیا میں پڑھائی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت تھی۔ وہ بتاتے ہیں، کچھ دنوں کی کوشش کے بعد مجھے ایک پٹرول پمپ پر جاب مل گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ شروع کے دنوں میں ایک انگریز لڑکے کے ساتھ ٹریننگ کروں گا۔ ٹریننگ کے دوران میں انگریز لڑکے نے بتایا کہ یہاں پر سیل ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے پیٹرول کے ریٹ کم اور زیادہ ہوتے رہتے ہیں اگر فون آئے، تو آپ بے شک سن لینا۔ اگلے ہی دن فون آگیا کہ پیٹرول کے ریٹ 15 سینٹ بڑھا دیے جائیں۔ مَیں نے باہر دیکھا، تو پٹرول ڈلوانے والوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ مَیں نے انگریز لڑکے سے کہا کہ جلدی کرو 15 سینٹ ریٹ بڑھا دو، تو مَیں یہ سن کر حیران رہ گیا۔ انگریز لڑکے نے بتایا کہ ہم اس وقت تک ریٹ نہیں بڑھائیں گے، جب تک یہ گاہکوں کی لائن ختم نہیں ہو جاتی اور باہر جو ریٹ کا سائن لگا ہوا ہے، وہاں پر ہم ریٹ کو بڑھا نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ ہمارے پیٹرول پمپ پر آئے تھے، تو اُس وقت تو ریٹ کم تھا۔ مَیں نے کہا کہ اس سے تو ہمیں نقصان ہوگا۔ اُس نے کہا بے شک نقصان ہو، ہم ہمیشہ گاہک کا فائدہ سوچتے ہیں۔ پھر اس طرح ایک دن فون آیا کہ پیٹرول کے ریٹ فوری طور پر 20 سینٹ کم کر دیے جائیں۔ مَیں نے باہر دیکھا، تو اس دفعہ بھی پٹرول ڈلوانے والوں کی لمبی لائن موجود تھی۔ تو مَیں نے اپنے ساتھی انگریز لڑکے سے کہا کہ 20 سینٹ کم کرنے کا فون آیا ہے، تو اُس نے کہا کہ اب ہم لوگوں کے جانے کا انتظار نہیں کریں گے، بلکہ فوری ریٹ کم کریں گے، تاکہ یہ جو لوگ لائن میں لگے ہوئے ہیں وہ بھی اس کا فائدہ اٹھائیں۔ جب ہم دونوں کچھ دیر کے لیے فری ہوئے، اُس نے بتایا کہ پیٹرول کا ریٹ کم ہو یا زیادہ ہو، دونوں صورتوں میں ہم گاہک کا خیال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ یہ گاہک ہی ہیں جو ہماری روزی لے کر آتے ہیں۔‘‘
ایک ہمارے ہاں رواج ہے کہ بھنک بھی پڑجائے کہ پٹرول کا ریٹ بڑھنے والا ہے، تو پٹرول کی سیل بند کر دیتے ہیں۔ پٹرول پمپوں پر ’’پٹرول ختم ہے!‘‘ کا بورڈ آویزاں کر دیا جاتا ہے۔ چاہے جتنی ایمرجنسی ہو، آپ کسی مریض کو انتہائی سیریس حالت میں ہسپتال ہی کیوں نہ لے کر جا رہے ہوں، پٹرول کا حصول آپ کے لیے آبِ حیات کی تلاش بن جائے گا۔ چند روپوں کی خاطر انسانیت کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ کوئی لاکھ منتیں کرے، دولت کی ہوس کانوں سے بہرا کر دیتی ہے…… اور اگر پیٹرول ریٹ کبھی غلطی سے کم ہو جائے، تو اکثر پٹرول پمپ مالکان کا موقف ہوتا ہے کہ یہ مہنگا خریدا ہوا پٹرول ہے۔ ہم قیمت میں کمی نہیں کرسکتے، گاہکوں کو رعایت اسی وقت دے سکیں گے، جب نئی قیمت والا پٹرول آئے گا۔
قوموں کا عروج و زوال ان کی محنت اور اجتماعیت کی موجودگی یا عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ ان کی اقدار کا بھی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اخلاقی اقدار کے معاملے میں ہم دن بدن پستی کی طرف محوِسفر ہیں۔ اجتماعیت اور قومیت کا جذبہ سرد پڑ چکا ہے۔ ہم ہر معاملے میں اپنے ذاتی نفع و نقصان کا سوچتے ہیں۔ ہمیں ایک قوم کہنا بھی قوم کی توہین ہے۔ ہم ایک بکھرا ہوا ہجوم ہیں۔ اسی لیے زوال کی طرف تیزی سے گام زن ہیں اور بدقسمتی سے ہماری گاڑی کے بریک بھی فیل ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالا ہمارے ملک پر رحم فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔