کیا نواز شریف نے دیر کردی؟

اُردو کی مشہور ضرب المثل ہے: ’’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل!‘‘
فرہنگِ آصفیہ میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی کا نظروں سے اوجھل ہو جانا یا درمیان میں پہاڑ کا آ جانا ایک برابر ہے۔
اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھیں، تو یہ ضرب المثل اس پر 100 فی صد پورا اُترتی ہے۔ جو لوگ ہماری نظروں کے سامنے ہوں، وہ ہمیں نہیں بھولتے۔ اس کے لیے ان کا ہماری زندگی میں اہم ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
مثلاً ہمارے دفتر یا کام کے ساتھی، جس بس یا ویگن پر ہم روزانہ یا اکثر سفر کرتے ہیں اس کا ڈرائیور، دفتر کا چپراسی اور چوکی دار، بازار کے دکان دار جن سے روزانہ یا اکثر واسطہ پڑتا ہے حتی کہ گلی میں آنے والا فقیر بھی ہمیں یاد رہتا ہے۔ اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ ہمارے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، ان کا بچھڑنا ہمارے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے، مگر کچھ عرصے بعد ہمیں صبر آجاتا ہے۔ ہم ان کے بغیر جینا سیکھ لیتے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بقولِ پروین شاکر
عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ اَب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد
یہ فطری عمل ہے کہ یاد وہی رہتا ہے جو سامنے ہو، جو نظروں سے اوجھل ہو جائے…… اُسے یاد کرنا پڑتا ہے۔
جب 2017ء میں پانامہ میں سے اِقامہ نکال کر میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا اور پھر انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا، تو وہ مقبولیت کی انتہا پر تھے…… مگر ہمارے ہاں اقتدار میں رہنے کے لیے مقبولیت سے زیادہ ’’قبولیت‘‘ ضروری ہوتی ہے۔ ان کی ’’ناقبولیت‘‘ کے پیچھے دراصل عمران خان کو ’’قابلِ قبول‘‘ بنانا تھا۔ جیل میں نواز شریف کی بیماری، پلیٹ لیٹس کا خطرناک حد تک گرنا، مولانا فضل الرحمان کا لانگ مارچ، عمران خان کا گھٹنے ٹیکنا اور نواز شریف کو ایک ڈیل کے ذریعے انگلینڈ بھیجنا سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ عمران خان کو 2030ء تک برسرِ اقتدار رہنا تھا، مگر 2022ء ہی میں وہ ’’قبولیت‘‘ کی مسند سے نیچے گرا دیے گئے۔ سیاست مفادات کا کھیل ہے۔ یہاں چھوٹی سی غلطی یا لغزش عمر بھر کا پچھتاوا بن جاتی ہے۔ عمران خان پر مقبولیت کا نشہ چڑھ گیا اور ایسا چڑھا کہ وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ وہ اپنے محسنوں کو ہی آنکھیں دکھانے لگے۔ ہوسِ اقتدار میں انسان غلط فیصلے بھی کرتا ہے اور سیاسی جو۱ بھی کھیلتا ہے۔ یہ شطرنج کی بازی ہی تو ہوتی ہے۔ بازی جیتنے کے لیے عمران خان کے پاس فیض حمید جیسا کوچ موجود تھا، جس کے اپنے مفادات بھی عمران خان کی جیت سے وابستہ تھے۔ انھیں اگلا آرمی چیف بننا تھا جب کہ عمران خان کو 2030ء تک اقتدار میں رہتے ہوئے ملک کو پارلیمانی سے صدارتی نظام کی طرف لے کر جانا تھا…… لیکن سامنے والے بھی کہنہ مشق کھلاڑی تھے، جن کے سامنے عمران خان اناڑی ثابت ہوئے اور انھیں اقتدار کی قربانی دینا پڑی۔ فیض حمید آرمی چیف تو نہ بن سکے، البتہ استعفا دے کر محفوظ راستے سے گھر جانے میں کامیاب ہوگئے۔
جناب شہباز شریف پچھلے 11 ماہ سے وزیرِ اعظم کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہیں۔ ان کے ساتھ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔
اس وقت ملکی تاریخ کی بھاری بھرکم وفاقی کابینہ عملی طور پر دیوالیہ ملک کے خزانے پر بوجھ بنی ہوئی ہے جب کہ عوام آٹے، راشن اور پٹرول کی قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت گذشتہ گیارہ ماہ کے دوران میں عوام کو کوئی ریلیف دینے کی بجائے ان پر قہر اور مصیبت بنی ہوئی ہے۔ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے معاہدے کی جھوٹی خوش خبریاں سنا سنا کر حکومت کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرحِ سود کو 22 فی صد کرنے کی شرط کو تسلیم کرکے حکومت نے انڈسٹریز کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ایسے میں میاں نواز شریف لندن بیٹھے چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انھوں نے عملی سیاست کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مریم نواز شریف کی لانچنگ اور پارٹی کی سنیئر نائب صدر بننے کے بعد انھیں چیف آرگنائزر بنانا دراصل شہباز شریف صاحب پر بے اعتمادی کا اظہار ہے، جس کا واضح ثبوت مریم بی بی کی تقاریر ہیں، جن میں وہ مسلم لیگ ن کی 2017ء تک کی کارکردگی کو کیش کراتی نظر آتی ہیں۔ وہ شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کی حکومتوں کی کارکردگی کو مسلم لیگ ن کے کھاتے میں ڈالنے کو تیار نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مریم بی بی اپنی پوری کوشش کے باوجود عمران خان کا سحر توڑنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے پی اور پنجاب میں الیکشن سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ عمران خان جو کہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں انتہائی نامقبول ہو گئے تھے، وفاقی حکومت نے اپنی ناقص کارکردگی سے انھیں ملک کا مقبول ترین سیاست دان بنا دیا ہے۔ وہ بیک وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے نبرد آزما ہیں۔ ان کا بیانیہ قبولِ عام کی سند حاصل کرچکا ہے۔ ن لیگ میں صرف میاں نواز شریف ہی ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں، مگر وہ لندن میں بیٹھے عوام کی تباہی کا دور سے نظارہ کر رہے ہیں۔ ان کے بھائی وزیرِ اعظم ہیں، مگر وہ پاکستان آنے کو تیار نہیں۔ وہ عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے حالات سازگار دیکھنا چاہتے ہیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ جب پرویز مشرف نے انھیں باہر بھیجا تھا، تب مقابلے پر عمران خان نہیں تھا۔ حالات انتہائی نامساعد ہونے کے باوجود بھی عمران خان پاکستان میں موجود ہیں۔ نہ صرف موجود ہیں بلکہ لوہے کا چنا بنے ہوئے ہیں۔ ان کی صرف اس ایک بات نے انھیں ہیرو بنا دیا ہے کہ اپنے اوپر ایک سو سے زائد مقدمات، ان کی گرفتاری کی متعدد بار کوشش اور جواب میں ان کی ثابت قدمی اور ملک سے باہر نہ جانے کا عزم عوام کو پہلی بار کسی لیڈر میں نظر آیا ہے۔ عوام ان پر پروانہ وار نثار ہونے کو تیار ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے روز افزوں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے میں نواز شریف کو بہت پہلے ملک آ جانا چاہیے تھا۔ بے شک وہ قبول کیے جا رہے ہیں، مگر عوام میں نامقبول ہو رہے ہیں۔
ضرب المثل ’’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل‘‘ کے پیچھے صدیوں کے تجربات ہیں۔ مقبولیت کے لیے عوام کے اندر رہنا ضروری ہے۔ صرف حکومت کرنے کے لیے نہیں، عوام کی مشکلات میں بھی ان کے ساتھ رہنا ہو گا۔ ورنہ عوام کی یاد داشت کم زور ہو چکی ہے۔
’’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے