سوات میں اختیارات کی انتظامی تقسیم

معروضی طور پر سوات ملاکنڈ ڈویژن کا ایک ضلع ہے۔ سوات سے پہلے بھی ڈسٹرکٹ شانگلہ، بونیر اور کوہستان کو الگ ہو کر اضلاع بنایا جاچکا ہے۔ دو دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اب تک مذکورہ اضلاع کے بعض معاملات ضلع سوات سے علیحدہ نہیں ہوئے ہیں۔ بالفاظ دیگر بعض معاملات میں مذکورہ اضلاع خود کفیل نہیں ہوئے ہیں اور یا ترقی کے اہداف سست رو ہیں۔ سوات میں کاروبار سیاحت سے وابستہ ہے۔ سوات سے دو ایم این ایز، پارلیمنٹ زیریں کیلئے جبکہ آٹھ ایم پی ایز صوبائی اسمبلی کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ سوات میں مرغزار، ملم جبہ، میاندم، مدین،سخرہ، بحرین اور کالام سیاحتی مقامات شمار ہوتے ہیں۔ سوات کے باشندگان کے درمیان علاقائی تقسیم پہلے ہی سے ہوچکی ہے جس میں برسوات اور سم سوات قابل ذکر ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ کالام اور بحرین سے آئے ہوئے شہریوں کو ہیڈ کوارٹر آنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مینگورہ، سوات کا معاشی مرکز ہے۔ تقریباً تمام وادی بشمول مذکورہ اضلاع کو اشیائے خور و نوش یہاں سے جاتی ہیں۔ ضلع سوات میں یہاں کے دیگر علاقوں کا فاصلہ اگرچہ تقریباً سو کلومیٹر بنتا ہے لیکن سڑکوں کی ناگفتہ بہ صورتحال کی وجہ سے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، جس سے کافی مسائل نے جنم لیا ہے۔

مینگورہ، سوات کا معاشی مرکز ہے۔ تقریباً تمام وادی بشمول مذکورہ اضلاع کو اشیائے خور و نوش یہاں سے جاتی ہیں۔

میرا نکتۂ نظر یہ ہے کہ سوات کی سڑکیں کم اور ٹریفک کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ مینگورہ سے نکلتے ہوئے بھی گھنٹوں لگ جاتے ہیں اور رہی سہی کسر بالائی علاقوں تک جانے کے لئے کھنڈر نما سڑکیں پورا کر دیتی ہیں۔ اس لئے ہسپتال میں مریضوں، سرکاری دفاتر، لین دین، کاروبار اور عدالتوں کے آنے جانے میں لوگوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاحوں کے آنے جانے کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ جگہ جگہ چیک پوسٹیں اور رکاوٹیں مسائل کو مزید گھمبیر کرنے کیلئے کافی ہیں۔ سادہ الفاظ میں عرض ہے کہ مینگورہ سے کالام تک کا راستہ کسی صورت بھی دو گھنٹے سے زیادہ نہیں۔ بشرط یہ کہ کالام تک اور مینگورہ سے ملحقہ علاقوں میں رابطہ پلوں اور بائی پاسز کا جال بچھایا جائے۔ اس لئے مذکورہ پلوں اور سڑکوں کو چھوڑ کر سوات کی انتظامی تقسیم کا بہانہ بناکر عوام کو نان ایشو زمیں الجھا دیا گیا ہے۔ اصولی فیصلے بر وقت کئے جاتے ہیں لیکن سیاسی فوائد لینا ہی اولین مقصد بنایا گیا ہے۔ خوازہ خیلہ ریڈیو کے غیر قانونی ایف ایم ریڈیو اور با اثر شخصیات کے ذریعے جھوٹے سچے خواب دکھا کر وہاں کے مکینوں کی ذہن سازی کی گئی ہے۔ بہرحال حالات جس نہج پر ہوں، برسوات کے شہریوں کی رائے کا احترام وقت کا تقاضا ہے۔ شائد اس سے دوگنے مقاصد حاصل ہونے کی امید ہے۔ حالانکہ کسی طور پر سوات کے عوام کی جدائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب زیر نظر مسئلے کی طرف آتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا انتظامی طور پر سوات کی جدائی ممکن ہے؟ یا یہ کسی خاص گروہ یا خاندانوں کی ذاتی خواہش پر مبنی ایک چھوڑا ہوا شوشا ہے۔ تو جواباً عرض ہے کہ ہاں سوات کے انتظامی اختیارات کی تقسیم نا ممکن نہیں، مگر مشکل ضرور ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جب سر پر الیکشن آنے کو ہو۔ صوبائی حکومت اس کی کبھی متحمل نہیں ہوسکتی کہ سوات میں برسوات ضلع کی داغ بیل ڈالی جائے۔ اے این پی کے نمائندگان سوال کرتے ہیں کہ برسوات کے لوگوں کو مذکورہ مسئلہ کے تناظر میں رشوت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہتر ہوتا کہ صوبائی حکومت کچھ نہ کچھ ترقی کے اہداف ہی سر کرلیتی۔ یاد رہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ اب بھی اگر برسوات کو نیا ضلع بنایا جائے، تو روزگار کے مواقع برآمد ہوسکتے ہیں۔ مختلف ادارے بن کر اس میں نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ ترقی کا رفتار دوگنا ہوسکتا ہے اور ہزاروں نئی نوکریاں وجود میں آسکتی ہیں۔ اگر بر وقت برسوات کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کیا جاتا، تو شائد لوگوں میں اس قسم کی خواہشات جنم ہی نہیں لیتیں۔ دیر آئد درست آئد کے مصداق نیکی میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے تھی، لیکن نہیں اب سر پر الیکشن سوار ہے اور اس کا سیاسی فائدہ لینا ہے۔ سڑکیں، پل، روزگار، ادارے اور ٹریفک جائے بھاڑ میں، ساڑھے چار سال ایسے گزر گئے، جب دوسری مرتبہ حکومت ملے گی، تو اس پر دوبارہ سوچا جاسکتا ہے۔

اگر انتظامی تقسیم کرنا ہی ہے، تو موجودہ سوات کو ایک نہیں بلکہ تین ضلعوں میں تقسیم کیا جانا چاہئے۔ تاکہ کسی کی حق تلفی کا خطرہ نہ ہو۔ بحرین سے لیکر کالام، اتروڑ اور مہوڈنڈ کا علاقہ سوات کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت کافی پسماندہ ہے

میری نظر میں اگر انتظامی تقسیم کرنا ہی ہے، تو موجودہ سوات کو ایک نہیں بلکہ تین ضلعوں میں تقسیم کیا جانا چاہئے۔ تاکہ کسی کی حق تلفی کا خطرہ نہ ہو۔ بحرین سے لیکر کالام، اتروڑ اور مہوڈنڈ کا علاقہ سوات کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت کافی پسماندہ ہے اور علاقہ رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تقسیم آبادی یا رقبہ کے لحاظ سے نہیں ہو رہی، کیوں کہ اگر آبادی پر ہی تقسیم کرنا ہوتا، تو شائد پشاور ہی کو تقسیم کر دیتے۔ مجوزہ تقسیم کی رو سے بر سوات رقبہ کے لحاظ سے سہ گنا بڑا علاقہ ہے۔اگر حکومت علاقے کی ترقی اور عوام کے معیارِ زندگی کی ترقی ہی چاہتی ہے، تو مذکورہ علاقوں کو ملا کر سوات کوہستان کو ایک ضلع بنایا جائے۔ اس طرح شموزو، کبل، مٹہ، باغ ڈھیرئی اور مدین کے دیگر علاقوں کو ملاکر دوسرا ضلع برسوات بنایا جائے۔ دانستہ اور یا نا دانستہ طور پر تحصیل مٹہ اور تحصیل کبل کے عوام نے ضلعی ہیڈ کوارٹر کے لئے وقتاً فوقتاً آواز اٹھائی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہیڈ کوارٹر سیاسی اثر و رسوخ پر نہیں بلکہ عوام کی خواہش پر ہونا چاہئے اور اس طرح تیسرا ضلع سم سوات کو لنڈاکی، مرغزار،ملم جبہ سے لے کر خوازہ خیلہ تک اسی حالت میں برقرار رکھنا چاہئے۔ اس میں کسی ہیڈ کوارٹر کا مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں پہلے ہی سے ہیڈ کوارٹر موجود ہے۔ اگر پھر بھی کوئی مسئلہ اٹھتا ہے، تو اس پر علاقے کے نمائندگان کو از سر نو آواز اٹھانی چاہئے اور اس کے حق اور مخالفت میں آواز اٹھا کر مسئلہ کے متعلق رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ عدالتوں اور عدالت عالیہ دارالقضا کے لئے ایک ہی جگہ مخصوص کی جائے۔ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ جیل اور ہسپتال کے علاوہ تعلیمی بورڈز اور دیگر اداروں کا ہونا بھی لازمی امور ہیں۔

ضلع کے بنانے کے لئے صرف ڈی سی اور ڈی پی او کافی نہیں ہوتے۔ اس کے لئے ادارے وجود میں لانے ہوتے ہیں۔ کروڑوں کے فنڈ مختص کرنے ہوتے ہیں۔

دراصل سوات کی مجموعی ترقی اور انتظامی اختیارات کی تقسیم کیلئے ضلع کی نہیں اضلاع بنانے کی ضرورت ہے۔ جب کسی علاقہ کو ضلع کا درجہ دیا جائے، تو اس کے عوام اور نمائندگان کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے بارے میں سوچیں اور کسی دوسرے فرد پر اپنی ناکامی کا ملبہ نہ ڈالیں۔ میری نظرمیں ان حالات کے موافق سوات کو ڈویژن کا درجہ دیا جانا بھی اہم امر ہے۔ اس طرح اضلاع بنانے سے برسوات کے عوام اور اور سم سوات کے علاوہ سوات کوہستان، بونیر اور شانگلہ کا ایک ڈویژن وجود میں آجائے گا جو کہ حکومتی اور بعض سیاسی پارٹیوں کا منظور نظر فارمولا بھی ہے۔ شائد اس سے بعض لوگوں کو سیاسی بلکہ عام عوام کو بھی فائدہ ملے۔اس طرح شائد سوات ڈویژن سے آئندہ ادوار میں ایک وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہو۔ اس لئے سوات ڈویژن کے بعض دیرینہ مسائل خود بخود حل ہوں گے۔ خدارا، کچھ سوچئے اور ہوش کے ناخن لیجئے کہ کوئی ان حالات میں ہماری سادگی سے فائدہ تو نہیں اٹھا رہا۔ علاقہ کی ترقی، بنیادی ہدف ہونا چاہئے۔ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ والی پالیسی میں عام عوام کی خیر نہیں۔ اضلاع بنانا اور انتظامی طور پر جداگانہ حیثیت منوانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ انتظام تو پھر بھی سم سوات میں رہے گا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس طرح ضلع کے بنانے کے لئے صرف ڈی سی اور ڈی پی او کافی نہیں ہوتے۔ اس کے لئے ادارے وجود میں لانے ہوتے ہیں۔ کروڑوں کے فنڈ مختص کرنے ہوتے ہیں۔ کچھ نادانوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم پارلیمنٹ میں کس مقصد کے لئے اپنے امیدوار بھیجتے ہیں؟ ان امیدوار نمائندگان کا کام ہی یہی ہے کہ وہ اپنے علاقہ کی مجموعی ترقی کے لئے حکومت سے ترقیاتی فنڈ لے سکیں۔ لیکن اگر وہی نمائندہ اپنی فکر کر رہا ہو یا سرے سے اپنے علاقے کی ترقی نہ چاہتا ہو، تو پھر تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔

……………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔