گذشتہ کچھ سالوں سے دنیا جہاں کے اکثر دھندے چھوڑ کر کتب بینی کی عیاشی کرتا رہا ہوں۔ نصاب کی تو نہیں پڑھی جاتیں…… البتہ غیر نصابی مطالعے میں کوئی خاص موضوع مخصوص نہیں کیا۔ نیچرل سائنسز، سوشل سائنسز، ادب، دینیات وغیرہ سب میں دلچسپی ہے۔
پہلے پہل جب پڑھتے وقت یا عام حالات میں بور ہو جاتا، تو فیس بک کا رُخ کرلیتا۔ چوں کہ ہر مکتب فکر کے بہت اچھے لکھاری ایڈ کیے ہیں…… اس لیے یہاں سے بھی خالی ہاتھ نہ جاتا…… بلکہ دلچسپ اور علمی تحریروں کے مزے لوٹ کر جاتا۔
ایک عرصے سے اب وہ والی صورت حال نہیں رہی۔ وہ لوگ جن سے بہت کچھ سیکھا ہے…… اور مزید سیکھنے کی امیدیں ہیں…… انہوں نے قسم کھائی ہے کہ رایج سیاسی مباحثوں سے ہٹ کر کسی بھی موضوع پر بات نہیں کریں گے۔
بات بھی کیا ہوتی ہے…… ایک گروہ یا فرد کی تعریف اور دوسرے گروہ کی تنقیص کے مینار کڑھے کرنے کی دوڑ ہوتی ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ جب بھی کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے، تو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ فُلاں کی اس پر کیا رائے ہوگی…… اور فُلاں کی کیا!
کبھی کبھار بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ اتنا پڑھا لکھا شخص بھی اس قدر متعصب اور جذباتی ہوسکتا ہے!
یہی لوگ ہوتے ہیں جو ہر دم جمہوریت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ ارے دانشور صاحب……! جب آپ کے نہ صرف اپنے رویے غیر جمہوری ہیں بلکہ دوسروں میں بھی مطلق العنانی کا پرچار کرتے پھرتے ہیں، تو پھر یہ ’’جمہوریت جمہوریت‘‘ کے کھوکھلے نعرے چہ معنی دارد……؟
’’مین اسٹریم میڈیا‘‘ کے ’’آوٹ لِٹس‘‘ تو محض کاروباری ذرایع ہیں…… اور ان پر ہمارا اختیار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے ان سے کسی علمی اور مفید کانٹینٹ کی امید بے سود ہے…… لیکن سوشل میڈیا، جو باقی میڈیا سے زیادہ موثر اور طاقت ور ہے…… اور جس پر اپنا اچھا خاصا اثر و رسوخ بھی ہے، کو کیوں اسی الزام تراشی اور دشنام طرازی کی راہ پر لگایا گیا ہے! جس کو بھی دیکھو، سیاسی تجزیہ کار بنا بیٹھا ہے……!
آپ کو دن میں…… بلکہ ہفتے میں سائنس، فلسفے، تاریخ، ادب، جدید ریسرچ، آرٹ وغیرہ پر مبنی کتنی تحریری ملتی ہیں……؟ اور روزانہ کی بنیاد پر سیاست پر لکھی گئی مروجہ تحریروں کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ کیا یہ اس قدر کھلا تضاد بہت بڑا المیہ نہیں……!
یاد رہے کہ ایک زمانے سے ایجنڈا/ ٹرینڈ سیٹنگ سوشل میڈیا ہی پر ہو رہی ہے۔ یہاں آپ جن چیزوں کو ترجیح دیتے ہیں…… وہی قوم کا فیشن ٹھہرتی ہیں۔ جب ایسا ہے، تو کیوں نہ ہم مل کر کچھ اچھے ٹرینڈز سیٹ کرنے کی کوشش کریں؟
میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سیاست پر بحث نہ کی جائے۔ ضرور کی جائے…… اگر اس کی نوعیت قصیدے اور تنقیص سے پرے ہو…… اور صرف تنقید کے معیار پر پورا اترتی ہو۔ لیکن اگر کوئی کسی کی نفرت یا محبت میں اندھا ہوہی چکا ہے اور بینائی کے سارے راستے بھی خود پر بند کیے ہے، تو کیوں نہ وہ دیگر بے شمار موضوعات پر قلم اٹھانا شروع کرلے؟ یوں خود بھی پُرسکون رہے گا اور دوسروں کو بھی کچھ فایدہ ہوگا!
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔