خانہ بدوش، فطرت کے رنگوں کے سچے پرستار

وہ قبیلہ جس کے پاؤں سفر در سفر سے آبلہ پا ہوتے ہیں…… منزلیں بھی اس کے قدموں کی چاپ سے آشنا…… وہ کبھی اِس نگر کبھی اُس نگر…… دریا کی مانند رواں دواں…… سیماب فطرت…… راہ کی رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لانے والے…… فطرت کے تمام رنگوں اور سختیوں سے واقف…… قدرت سے ہم کلام ہونے والے…… شل مکھی (سو چہروں والی) دیامر کے تمام روپ اس کے سامنے وا ہو ہو جاتے ہیں۔ گیشا برم ایک اور دو، براڈ پیک اس کے لیے آنکھیں بچھائے رکھتی ہیں…… دومانی کے برفانی معبد اس کے سامنے سرنگوں…… چگوری کا حسن اس کی دیوانگی کے سامنے ماند پڑ جاتا ہے…… ملکۂ حسن لیلہ پیک ہائے قیس کی آہیں بھرتی ہے…… التر، دیران، شلتر اور لیڈی فنگر اس کے وصل کی متمنی…… فلک سر اس کے قدموں کے چاپ شناس………… ترچ میر غازہ و رخسار کی مشاطگی کرکے دور سے وارے جائے…… جوگیوں کا ٹلہ کسی بالناتھ کے یوگ کا منتظر…… تخت سلیمان اس کے لیے آغوش کھولے، محوِ خرام…… دیوسائی کے پھول اس کے سامنے بچھ بچھ جاتے ہیں…… رتی گلی کے یہی رتے پھول، چٹہ کٹھہ اور دودی پت کی سفید دل کشی یہی تو ہے…… جہلم سے مویشی ہانکتے جب یہ دیوسائی پہنچتا ہے، تو شیو سر اس کے عشق میں اندھی ہوچکی ہوتی ہے، یہ عطا آباد جھیل میں دفن ہے…… رش لیک پر اسی کا رش…… یہ دل پھینک سیف الملوک سے منھ موڑ چکا ہے…… کیوں کہ اب یہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو منھ لگاتی پھرتی ہے…… ست پارہ و کچورا دل کی رانی…… شیوک کا یخ بستہ پانی، سندھ کی گدلی راجدھانی، جو لاکھوں سالوں سے تہذیب پرور آبِ حیات ہے۔ نیلم و کنہار کی روانی اس کی زندگانی ہے…… ہنزہ دریا کے نیلگوں سوتے…… برالڈو کی جولانی…… دریائے چترال کے ایون موڑ……شمشال دریا کے کنارے زرد سرسوں کی جوانی…… دریائے خنجراب کی ویرانی…… پکھی واس (پنجابی کا لفظ بمعنی خانہ بدوش) ہی اس سب دریاؤں میں چشمے، ندی، نالے اور آبشار کی صورت مدغم ہو کر ان کو سیلانی بناتے ہیں۔ کنڈ ملیر، اورمارہ، پسنی، جیونی، گوادر کے ساحلوں کی رونق یہی قبیلہ تو ہے…… سیاہ چن کا نام اسی سیاہ گلاب کا استعارہ، سنو لیک، ہسپر، بیافو، بتورہ، پسو، ہوپر، برپو، یتمورو، پیو ماری چش، مناپن، ٹریور اور مالنگوتی جیسے برفانی پانیوں کے گلیشیرز اس کے دم قدم سے آباد رہتے ہیں……!
گونڈوگورو، سوکھا، سم لا، سکم لا، سارپو لوگو، ہیبت ناک خوروپن، لکپے لا، شمشال پاس،کنکورڈیا…… چیلنجی، ہراموش، واخان اور کرومبر کے علاوہ تمام ٹریک اس کی قلقاریوں کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش، ہر لمحہ ہر پل……!
نیلم، جہلم، لیپہ، کاغان، سُپٹ، کوہستان، گلگت، نلتر، ہنزہ، چپورسن، اشکومن، یاسین، پھنڈر، مستوج، چترال، کیلاش، کمراٹ، سوات، استور، اسکردو، خپلو، مچلو، گوما، ہوشے، ہنہ اوڑک جیسی تمام وادیوں کے حسن کی یہی پکھی واس مالا جپتے پھرتے ہیں۔
حضر کے عادی، ٹھنڈے کمروں کے گوشہ نشین، نام نہاد مصروفیت کے پیروکار کیا جانیں کہ بلوچستان کے باغوں کے تازہ سیبوں، خوبانی، چلغوزہ، اناروں اور املوکوں…… خپلو اور کیلاش کے شہتوتوں و سیبوں…… اسکردو، ہنزہ کی چیری و خوبانیوں…… کشمیر کے سیبوں اور اخروٹوں…… خوازہ خیلہ کے آڑوؤں کا ذایقہ کیسے رس گھولتا ہوا روح تک اثر کرتا ہے!
ان کو کیا خبر کہ دیوسائی کے برفانی پانیوں علی ملک، چھوٹا، بڑا اور کالا پانی، کچورا، ست پارہ، کنہار، نیلم، ہنزہ، شگر، اشکومن، گاہکوچ، بمبوریت، پھنڈر اور نلتر کے ٹھنڈے پانیوں کی سنہری ٹراؤٹ کی منفرد لذت کیسے دیوانہ بنا دیتی ہے……!
شپ شورو، تمورو، شموس، ممتو،خوبانی اور اخروٹ کے کیک جنتی تحفے محسوس ہوتے ہیں۔
چقچن کی خانقاہ، شگر و تریشنگ کی مسجد میں اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہونے، بابا غندی اور خرواری بابا کی زیارت پر حاضری دینے میں من و روح کو جو شانتی ملتی ہے، اس کی اہلِ تمدن کو کیا خبر……اللہ اللہ……!
مگر یہ سب رنگ، سبزہ، جنگلوں، پھولوں کی مہک، یہ حسن، ان پکھی واسوں کے آنکھوں میں پکی رجسٹری کروا چکا ہوتا ہے۔ تمام آسمانی خوان اور من و سلوا انہی کے لیے اترتے ہیں۔
پکھی واس تہذیبوں کے امیں ہیں اور ہم جیسے کاہل، سست الوجود، آرام و راحت پسند بس کولہو کے بیل اور کنویں کے مینڈک ہیں۔ ان کو کیا خبر کہ کاینات کے کیا کیا رنگ ہیں۔ ہم اپنے حال میں مست…… وہ اپنی چال پر قایم……!
اے پکھی واس، کرغیز، جپسی، خانہ بدوش، راہرو، اسکیمو جس مرضی نام سے پکارو، تم ہی ہو دھن کے پکے……!
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے