5 فروری 2022ء کو آفتاب شہباز نے درش خیلہ میں اپنی شادی کے موقع پر مشاعرے کا انعقاد کیا تھا۔ مشاعرہ ختم ہوا، تو ایک خوب رو جوان ملنے آیا…… چھوٹتے ہی ایک کتاب عنایت فرمائی۔ سوچا کہ کسی کی کتاب ہوگی اور اِس لڑکے کے ہاتھ تحفتاً ارسال کی ہوگی…… لیکن جوں ہی اُس نے خود کو کتاب کا خالق ظاہر کیا، تو مَیں حیران ہوا کہ اس عمر میں لڑکے کتابیں پڑھنے سے عاجز ہوتے ہیں…… اور یہ سادہ دل ناول تخلیق کرگیا ہے۔
دل آویز ٹایٹل…… جس کے اوپر جلی حروف میں لکھا گیا لفظ ’’غازی‘‘، پس منظر میں ایک ایسی لڑکی دکھائی دیتی ہے جو دروازے میں جھانکتی ہے۔ دوسری طرف مصنف اشرف کی خوب صورت تصویر اور نجیب زیرے کے عالمانہ اور مدبرانہ تاثرات…… لو جی، سونے پہ سہاگا والی بات ہوئی۔
کتاب کی اشاعت ’’مدین ادبی ٹولنہ، مدین سوات‘‘ نے کی ہے۔ 95 صفحات پر مشتمل اس کہانی جسے مصنف نے ناول کے نام سے متعارف کیا ہے…… ایک حد تک اچھی کاوش ہے۔ ویسے اتنی چھوٹی سی عمر میں یہ بھی بڑی غنیمت ہے کہ ایک جواں سال لڑکا نہ صرف قصہ گوئی میں طبع آزمائی کر رہا ہے…… بلکہ ایک سماجی قصے میں پشتو روزمرہ اور محاورہ، زبان کی صحت، پاکیزہ خیالات، دل کش رومانیت اور اندازِ بیاں کا خیال رکھ کر افسانوی ادب کی فضا میں پَر مار رہا ہے۔ باقی اس کو کس قسم کا ناول قرار دیا جائے؟ میرے لیے یہ فیصلہ قدرے مشکل ہے۔ یہ کرداری ناول نہیں ہے جس میں کہانی ایک مرکزی کردار کے گرد گھومتی ہے۔ یہ ڈرامائی ناول بھی نہیں ہے جس میں بہت سے واقعات توقعات کے برعکس برآمد ہوتے ہیں۔ مہماتی بھی نہیں جس میں ہر آن نئی مہمات سامنے آتی ہیں۔ اس میں کسی خاص نظریہ کو پیش کیا گیا ہوتا، تو نظریاتی ناول کہلاتا۔ تاریخ کے کسی دور کو پس منظر کے طور پر پیش کیا جاتا، تو یہ تاریخی ناول ہوتا۔ اس طرح تجسس، تحیر اور اضطراب اس میں ہوتا، تو جاسوسی ہوتا۔
قارئین، اس دور میں ایک معیاری اصلاحی ناول لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ کیوں کہ ناول میں حقیقت سے روگردانی ممکن نہیں ہوتی۔ اس میں مافوق الفطرت عناصر کا گزر محال ہے۔ اس طرح کرداروں کا تجزیہ، حقایق کی تلاش، باقاعدگی اور تناسب و توازن مقصود ہوتا ہے۔
فنی اعتبارسے ناول کے لیے سب سے اہم چیز کہانی ہوتی ہے…… جس کی منطقی ترتیب اور اس کے تدریجی ارتقا پر ناول کی کامیابی کا انحصار ہوتا ہے۔
دوم چیز پلاٹ ہے…… جسے ناول نگار کہانی کے آغاز، تعمیر، مختلف واقعات کی ترتیب اُن کے اُتار چڑھاؤ اور کہانی کی تکمیل اور خاتمے کے متعلق اسے اپنے طور پر بناتا ہے۔
سوم، کرداروں کے افعال و اعمال، حرکات و سکنات، بول چال اور عادات و اطوار معاشرے کے عام انسانوں جیسے ہوں۔
عام تناظر میں ناول نگار کے ذہنی رویے سے ناول کے رُخ کا تعین ہوتا ہے۔ ناول کی تشکیل، ناول نگار کی زبان، اندازِ تحریر اور اُسلوب بھی اہم ہیں۔ اسی طرح اچھا ناول نگار قدرتی مناظر کو مختلف واقعات کے پس منظر کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
ناول کے یہ چند لوازمات نئے ناول نگاروں کو جاننا بہت ضروری ہیں…… جن کا اظہار مجھ جیسے ادب کے مبتدی کے لیے لازم ہے…… جو اشرف سحاب جیسے نوخیز ادیبوں کی خاطر اعادے کا کام کریں گے۔
ادب ہم سب کی مشترکہ دولت ہے اور پھر ناول کا موضوع ہی انسانی زندگی ہے…… جس قدر فن اور فکر میں نکھار آئے گا، اس قدر ادب مزید پروان چڑھے گا۔
اگر مصنف کی کوشش جاری رہی، تو مستقبلِ قریب میں ضرور ایک بہترین ناول نگار کا اضافہ ہوگا…… اور کیوں نہیں ہوگا، جو شخص اخوند درویزہ کی اولاد میں سے ہو، اس سے ایک بڑا لکھاری بننے کی توقع لازم رکھنی چاہیے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔