تبصرہ نگار: علی عمار یاسر
بہت عرصہ پہلے میں نے شیکسپیئر کے ایک ڈرامے کا اصل متن ساتھ رکھ کر اس کا اُردو ترجمہ پڑھا تھا، توکانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی تھی کہ آئندہ اُردو تراجم نہیں پڑھنے…… لیکن مترجم شاہد حمید صاحب کا نام اتنی بار کانوں نے سنا اور مختلف جگہوں سے پڑھا، تو جب مَیں نے ’’جین آسٹن‘‘ (Jean Austen) کے ناول کا وہ ترجمہ دیکھا…… جو شاہد حمید نے کیا تھا، تو فوراً خرید لایا۔
ترجمہ کا تو یہ ہے کہ اس سلسلہ میں میرے دو خدشات تو بالکل غلط ثابت ہوئے۔ ایک یہ کہ شاہد حمید صاحب نے بہت ہی رواں اُردو میں ترجمہ اس طرح سے کیا ہے کہ الفاظ کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھ کر ترجمہ کیا ہے۔ بالکل لفظی ترجمہ کر کے اصل متن کے زنانہ رشتہ داروں کو ایک نہیں کر دیا۔
دوسرا خدشہ یہ کہ آج کل اچھے اچھے پبلشر بھی ’’پروف ریڈنگ‘‘ پر کام نہیں کرتے۔ جہاں ’’کا‘‘ آنا چاہیے، وہاں ٹائپ کرنے والے ’’کی‘‘ ٹائپ کر دیتے ہیں…… اور پھر کتاب چھپ بھی ایسے ہی جاتی ہے۔ پھر میرے جیسے پڑھنے والے بار بار اٹکتے ہیں کہ یہ کردار دو صفحے پہلے تو مرد تھا…… اب ایک دم سے یہ خاتون کیسے ہوگیا…… اور ہواتو مصنف نے ہمیں بتانے کی زحمت کیوں نہیں کی؟ اس طرح کی پروف ریڈنگ کی غلطیاں مجھے تو سخت ناپسند لگتی ہیں…… لیکن میں یہاں ’’ریڈنگز‘‘ اور ’’القا پبلی کیشنز‘‘ کو داد دینا چاہوں گا کہ انہوں نے بہت عمدہ پروف ریڈنگ کی اور پانچ سو صفحات کے ناول میں گرامر کی یا ٹائپسٹ کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں…… بلکہ سمجھیں کہ ہیں ہی نہیں۔
درجِ بالا دو خدشات کی تشفی کے بعد ایک چیز جو میں توقع نہیں کر رہا تھا…… مگر شاہد حمید صاحب کی طرف سے ایک سرپرائز تحفے کے طور پر ملی…… وہ یہ کہ دیکھیں آپ اور میں چاہے جتنے بڑے انگریزی دان بن جائیں، بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں…… جو مصنف کے عہد، اس وقت کے رسوم و رواج اور قوانین سے عدم واقفیت کی بنا پر ہم ناول میں کچھ چیزیں سمجھنے سے رہ جاتے ہیں۔
ایسی تمام باتوں کی شاہد حمید صاحب نے ’’حاشیوں‘‘ یعنی ’’فُٹ نوٹس‘‘ میں وضاحت کر کے ناول کو سمجھنا مزید آسان کر دیا ہے۔
مثلاً ناول میں ’’مسٹر کولنز‘‘، ’’مس الزبتھ‘‘ کو ایک مکان کے دریچے زبردستی گنواتا ہے۔کیوں گنواتا ہے……؟ یہ آپ تب تک نہیں سمجھ سکتے…… جب تک آپ کو اس وقت کے برطانوی قانون کا پتا نہ ہو۔ اُس زمانے میں لوگوں کو ان کے مکانوں کی کھڑکیوں کے حساب سے ٹیکس بھیجا جاتا تھا…… اور زیادہ کھڑکیاں ہونے کا مطلب زیادہ امیر ہونا تھا۔ سو ایسی بے شمار باتوں کی شاہد حمید صاحب نے حاشیے میں وضاحت فرما دی ہے…… جو کہ اس ترجمے کو چار چاند لگا دیتی ہے۔
ترجمے کے بعد اب ناول کے پلاٹ کی طرف آتے ہیں۔
’’جین آسٹن‘‘ کے مداحین اگر میری اس جسارت سے صرفِ نظر کریں، تو میری نظرمیں اس ناول کو پُرکشش اس کی کہانی نہیں، اس کے کردار بناتے ہیں۔ کہانی تو عام ہی سی ہے۔ ایک مڈل کلاس گھرانے کی لڑکیوں کی شادی طبقۂ امرا کے نوجوانوں سے ہونے یا نہ ہونے کی داستان ہے۔
ایک طرف اشرافیہ کے نوجوان ہیں…… جنہیں رشتوں کی کمی نہیں اور دوسری طرف ’’مسز بینٹ‘‘ کی پانچ بیٹیاں ہیں…… جن میں سے ایک کی بھی ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔
اس طرح کی کہانیاں ہم نے بہت پڑھ رکھی ہیں…… لیکن کردار بلاشبہ بہت محنت سے بنائے گئے ہیں۔ ہر کردار اپنی اپنی جگہ ایسا ’’فِٹ‘‘ بیٹھ رہا ہے اور ’’جین آسٹن‘‘ نے ہر کردار کی تخلیق ایسی چابُک دستی سے کی ہے کہ اس کا نام سامنے آتے ہی کردار کے لحاظ سے دل میں اچھے یا برے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ’’مسٹر کولنز‘‘ کی چاپلوسی ہو یا ’’مسز بینٹ‘‘ کا گنوار پن…… ناول میں جگہ جگہ بکھرا نظر آتا ہے۔
کرداروں کی بنت کے علاوہ جو چیز اس ناول کو دل کش بناتی ہے…… وہ ہے اُس وقت کے برطانیہ کی منظر کشی۔ طبقۂ امرا کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس خاندانوں کے رہن سہن، مسائل، سوچنے کے انداز اور طور طریقے ہمارے سامنے بڑے دلچسپ انداز میں عیاں ہوتے ہیں۔
یہ اُس برطانیہ کی کہانی ہے جس میں طبقاتی فرق اپنے عروج پر ہے۔ کم تر لوگ اشرافیہ سے بغیر تعارف کے براہِ راست گفتگو نہیں کر سکتے اور جس میں ایک خوش گوار شادی کو فقط پیسوں کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ مڈل کلاس خاندان کا سب سے بڑا مسئلہ بیٹیوں کی شادی ہی نظر آتا ہے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ کہانی…… یہ طبقاتی فرق اور رشتوں کے قائم کرنے میں روپے پیسے کا اہم کردار آج بھی آپ کے ارد گرد قائم و دائم ہے، تو مبارک ہو……! آپ تین سو سال پہلے کے برطانیہ میں رہ رہے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔