جس طرح اُردو ادب میں ناول، افسانہ اور ڈراما کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔ ٹھیک اُسی طرح خاکہ نگاری بھی ایک جداگانہ اور منفرد صنف ہے۔
محمد فیصل اپنی ترتیب شدہ خاکوں کی کتاب ’’خط و خال‘‘، مطبوعہ ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘، سنہ 2018ء کے صفحہ نمبر 9 پر رقم کرتے ہیں: ’’خاکہ کے لغوی معنی ہیں ’’ڈھانچہ بنانا یا مسودہ تیار کرنا۔‘‘ ادبی نقطۂ نظر سے خاکہ ’’کسی شخصیت کی ہوبہو عکاسی کا نام ہے، نہ صرف اس میں ظاہری تصویر کشی کی جاتی ہے بلکہ باطن کا بھی احاطہ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے انگریزی اصطلاح "Sketch” رائج ہے۔ فنِ مصوری میں اس سے ملتی جلتی ایک اصطلاح "Portrait” بھی ہے جس میں کسی شخص کی ہوبہو تصویر بنائی جاتی ہے۔ ‘‘
دوسری طرف ابو الاعجاز حفیظ صدیقی اپنی تالیف ’’ادبی اصطلاحات کا تعارف‘‘ کے صفحہ نمبر212 پر نثار احمد فاروقی صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے خاکہ کی تعریف کے بارے میں رقم کرتے ہیں: ’’ادب کی جس صنف کے لیے انگریزی میں سکیچ یا ’’پِن پورٹریٹ‘‘ (Pen-Portrait) کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اُردو میں اُسے خاکہ کہتے ہیں۔ خاکہ ایک سوانحی مضمون ہے جس میں کسی شخصیت کے اہم اور منفرد پہلو اس طرح اجاگر کیے جاتے ہیں کہ اس شخصیت کی ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں پیدا ہوجاتی ہے۔ خاکہ سوانح عمری سے مختلف چیز ہے۔ سوانح عمری میں خاکے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن خاکے میں سوانح عمری نہیں سماتی۔‘‘
خاکہ نگاری کے حوالہ سے ڈاکٹر انور سدید اپنے ایک مضمون ’’شخصیت اور خاکہ نگاری‘‘ میں کچھ یوں رقم طراز ہیں: ’’خاکہ نگاری ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس کا خام مواد کسی دوسری شخصیت کے داخلی اور خارجی مطالعہ سے حاصل کیا جاتا ہے لیکن ایک عمدہ خاکہ نگار اس مواد کو من و عن پیش نہیں کرتا بلکہ زندگی اور شخصیت کے مختلف واقعات کو مشاہدہ کے تأثر اور تجربے کے عمل سے گزارنا پڑتا ہے اور یہی وہ مشکل مرحلہ ہے جہاں مصنف کے تخلیقی جوہر سے مس خام یا کندن بن جاتا ہے یا راکھ۔‘‘ (حوالہ:’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ از ڈاکٹر علی محمد خاں، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، مطبوعہ ’’الفیصل ناشران و تاجران کتب‘‘، سنہ 2019ء، صفحہ نمبر 237)
ناقدین مانتے ہیں کہ خاکہ نگاری انگریزی ادب سے اُردو میں روایت پائی ہے۔ محمد فیصل کے بقول انگریزی میں ملٹن مرے (Milton Murray)، لٹن اسٹریچی (Lytton Straychey) اور انتھونی شیلی کوپر (Anthony Ashley Cooper) خاکہ نگاروں کی حیثیت سے ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
خاکہ نگاری کی تاریخ اتنی طویل نہیں۔ محمد فیصل کے بقول، صحیح معنوں میں اس کا آغاز 20ویں صدی میں ہوا۔ صنفِ خاکہ نگاری ادب کی جدید اصناف میں شمار کی جاتی ہے۔
’’اصنافِ نظم و نثر‘‘ کے صفحہ نمبر 238 پر ڈاکٹر علی محمد خان اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کے مطابق : ’’اُردو میں خاکے کا ڈول مرزا فرحت اللہ بیگ (1884ء – 1947ء) نے ڈالا۔ اگرچہ ان سے بیشتر مولانا محمد حسین آزادؔ اس کا ناک نقشہ کافی حد تک تیار کرچکے تھے، جس کا ثبوت ہمیں ’’آبِ حیات‘‘ میں شامل میرؔ، انشاؔ اور آتشؔ کے تذکروں میں مل جاتا ہے، بلکہ اگر مرزا غالبؔ کے خطوط کا بغور مطالعہ کریں، تو اس میں جتنا شان دار اور جان دار خاکہ خود مرزا کا تیار ہوتا ہے، اس کی مثال آج بھی اُردو ادب میں ملنا محال ہے۔ اس لیے اگر ہم ذرا سی ہمت کریں، تو کہہ سکتے ہیں کہ اُردو میں خاکے کا سنگِ بنیاد مرزا غالبؔ ہی کے ہاتھوں رکھا گیا۔ مولانا آزادؔ نے اس کے اندازِ تعمیر کی نشان دہی کردی اور مرزا فرحت اللہ بیگ نے ’’نذیر احمد کی کہانی۔ کچھ ان کی، کچھ میری زبانی‘‘ (اول: 1927ء) کے ذریعے اس عمارت کو مکمل کردیا۔‘‘
دوسری طرف محمد فیصل مانتے ہیں کہ اردو میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش محمد حسین آزادؔ کی شاہکار تصنیف ’’آبِ حیات‘‘ میں ملتے ہیں۔ ’’شخصی خاکوں کے لحاظ سے ’’آبِ حیات‘‘ کو دیکھیں، تو اس میں میرؔ، انشاؔ، مصحفیؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کے کرداروں میں جا بجا خاکے کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ خصوصیت سے ذوقؔ پر ان کا مضمون شخصی خاکے کے بہت قریب ہے۔ ’’آبِ حیات‘‘ میں مولانا آزادؔ نے خاکہ لکھنے کی پہلی بار شعوری کوشش کی ہے۔‘‘ (حوالہ: ’’خط و خال‘‘، ترتیب شدہ محمد فیصل، مطبوعہ ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘، سنہ 2018ء صفحہ نمبر 09)
نثار احمد فاروقی کے بقول : ’’فرحت اللہ بیگ، مولوی عبدالحق دہلوی، رشید احمد صدیقی، محمد طفیل اور شاہد احمد دہلوی خاکہ نگاروں کی حیثیت سے اُردو ادب میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔‘‘ (حوالہ: ’’ادبی اصطلاحات کا تعارف‘‘ از ابو الاعجاز حفیظ صدیقی، صفحہ نمبر213)
ذکر شدہ خاکہ نگاروں کے ساتھ ساتھ محمد فیصل خاکہ نگاری کے فن کو آگے بڑھانے والوں میں کچھ نام یہ گِناتے ہیں: خواجہ حسن نظامی، آغا حیدر حسن، اشرف صبوحی، سردار دیوان سنگھ مفتون، جوش ملیح آبادی، مالک رام، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور، شورش کاشمیری، فکر تونسوی، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، مجتبیٰ حسین، چراغ حسن حسرت، مجید لاہوری، اے حمید، بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، عطاء الحق قاسمی، ظ۔ انصاری، بلونت سنگھ، ضمیر جعفری، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، اور ڈاکٹر اسلم فرخی وغیرہ۔ (حوالہ: ’’خط و خال‘‘، ترتیب شدہ محمد فیصل، مطبوعہ ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘، سنہ 2018ء صفحہ نمبر 10)
کسی بھی خاکہ کا معیار جانچنے کے لیے نثار احمد فاروقی کا یہ اصول اپنا لیں۔ ان کے بقول خاکہ کم و بیش ذیل کے سوالات کا جواب ہوتا ہے:
٭ عنوان کے الفاظ کیا ہوں گے؟
٭ مواد کو کتنے اور کون سے ابواب یا اجزا میں تقسیم کیا جائے گا؟
٭ ابواب یا اجزا کی ترتیب کیا ہوگی؟
٭ آغاز کس بات یا کن الفاظ سے ہوگا؟
٭ کون سے ضمنی سوالات اٹھائے جائیں گے؟
٭ کون کون سے ذیلی مسائل سے کہاں کہاں اعتنا کیا جائے گا؟
٭ مخالفانہ دلائل کی تردید کن دلائل سے کی جائے گی؟
٭ اپنے مؤقف کی تائید میں کون سے دلائل و شواہد، اشعار، اقتباسات اور حوالوں سے کام لیا جائے گا؟ (حوالہ: ’’ادبی اصطلاحات کا تعارف‘‘ از ابوالاعجاز حفیظ صدیقی، صفحہ نمبر 213، 214)
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔