عقل مینہ سال 1952ء میں مینگورہ سوات میں پیدا ہوئی۔ والد کا نام ’’ عنبر‘‘ اور والدہ کا ’’بخت سبا‘‘ تھا۔ خاندان فنِ موسیقی سے تعلق رکھتا تھا۔ والدہ خیبر پختونخوا کی نامور گلو کارہ تھی۔ وہ سوات کے علاوہ صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی گایا کرتی تھی۔ بخت سبا خاتون نے تقریباً بیس سال تک ریڈیو پاکستان سے براہِ راست گلوکاری کی ہے۔
عقل مینہ والدین کے ہمراہ محافلِ موسیقی میں شرکت کرتی تھی اور گائیکی میں اُ ن کی ہم نوا تھی۔ بہت سے لوک گیت گائے ہیں، لیکن انھیں پذیرائی غزل گوئی کی بدولت ملی۔
شاعر اور نثر نگار لائق زادہ لائقؔ، عقل مینہ اور اس کے گھرانے کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’خاتون عقل مینہ محلہ بنڑ (مینگورہ سوات) میں عنبر خان کے گھر پیدا ہوئی۔ وہ ابھی کم سِن تھی کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے شیر مالک نامی شخص سے نکاح کیا۔ اس طرح یہ لوگ سوات سے نوشہرہ اور پھر پشاور منتقل ہوگئے۔ یہاں پر انھوں نے ریڈیو کے لیے گانا شروع کیا۔ ریڈیو سننے والوں نے ان کی غزل گوئی کو بہت پسند کیا۔ اس طرح عقل مینہ کی شادی پشاور میں تحسین اللہ شنواری سے ہوئی۔ شادی کے بعد اُن کے لیے زندگی بہت مشکل ہوگئی، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور جدوجہد کرتی رہی۔‘‘
خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے ’’ شیر جان استاد‘‘ جو عقل مینہ کے ساتھ ایک مدت تک ہارمونیم بجاتے رہے، کا کہنا ہے کہ سوات کے لوگ عقل مینہ کی گائیکی کو بہت پسند کرتے تھے لیکن اس دوران میں وہ نوشہرہ منتقل ہوگئی اور ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ فلمی گیتوں سے وابستہ ہوگئی۔ عقل مینہ کی پشاور منتقل ہونے کے بعد ملاقات مجھ سے ہوئی۔ اس کے بعد وہ ہمارے میوزک گروپ کے ساتھ گائیکی کرنے لگی اور مجلسوں میں بھی جاتی تھی۔ انہوں نے کم مدت میں اپنی جادوئی آواز سے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ یوں اُن کا ہنر اُنہیں ریڈیو پاکستان تک رسائی دینے میں کام آیا۔ اُنہوں نے فلموں کے لیے بھی گانے ریکارڈ کرائے۔ مَیں اُن کے ساتھ تین تا چار سال ہارمونیم بجاتا رہا۔ اُن کی آواز میں عجب مٹھاس تھی جس کی بنا پر لوگ اس کو سننا پسند کرتے تھے۔ وہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع اور پاکستان کے دوسروں شہروں جن میں لاہور سرِفہرست ہے، پروگراموں کے لیے جایا کرتی تھی۔
عقل مینہ کے حوالے سے شیر جان استاد مزید کہتے ہیں: ’’ان کی آواز میں ایسا سوز تھا کہ خیال محمد اور کئی اور گلوکار ان کو سن کر سر دھنتے تھے۔ مَیں نے بہت سی خواتین فن کاروں کے ساتھ کام کیا ہے لیکن جب عقل مینہ گاتی تھی، تو سننے والے ٹکٹکی باندھ کر انہیں دیکھتے اور کان ان کی میٹھی آواز سننے کے لیے کھڑے رہتے۔ عقل مینہ خوش آواز ہونے کے ساتھ خوش شکل جو تھی۔ یہ وصف کم ہی لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ غزل گوئی میں ان کی آواز میں ایسا سوز تھا کہ اکثر لوگ کو روتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔‘‘
مَیں (ہارون باچا) نے عقل مینہ کو سال 2000 ء میں پاکستان ٹیلی وِژن پشاور میں پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ سیدھی سادی خاتون تھیں۔ اس وقت انہوں نے ایک گیت (آڈیو) ریکارڈ کرایا اور ویڈیو سے اجتناب کیا۔ وہ ٹیلی وِژن کے پردے پر آنا نہیں چاہتی تھی۔
شیر جان استادکے کہنے کے مطابق عقل مینہ کی شادی آفریدی قبائل میں ہوئی تھی۔ اب وہ دو بیٹوں کے ساتھ پشاور میں رہتی ہے، مگر حکومت سے خفا ہے کہ سرکار کی طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں کی جا رہی۔عقل مینہ کے دونوں بیٹے پشاور میں ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ ایک دن کی ملاقات میں انہوں نے گلہ کیا کہ ریڈیو اور فلم والوں نے منھ موڑ لیا ہے۔ مَیں (ہارون باچا) نے اُن کا یہ گلہ ایک پروڈیوسر تک پہنچایا، جواباً ان کا کہناتھا: ’’ فن کار جب میدان سے نکل جاتا ہے، تو پھر اُسے کون پوچھتا ہے؟‘‘
جاتے جاتے ان کے مقبول گیت ملا حظہ ہوں۔
چا ویشتلی ئے زما بے غورہ یارہ
خوب خوب دی وڑینہ
ستا دَ یادونو سلسلے نوری دی
زما د ہجر افسانے نوری دی
تر سو بہ غشی ستا دَ غم پہ زڑگی خورمہ
ناترسہ یارہ مرمہ، ناترسہ یارہ مرمہ
(ہارون باچا کی پشتو تصنیف ’’نہ ہیریگی نہ بہ ہیر شی‘‘، مطبوعہ ’’مشال ریڈیو‘‘، صفحہ 160 تا 163 کا ترجمہ)
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔