جی ہاں! یہ وہ عطاؔ نہیں جو کسی ’’گوری‘‘ کی زبانی اپنا نام ’’آٹا‘‘ اور کبھی ’’کس می‘‘ بھی کہلوا لیتے ہیں۔ یہ کام عطاء الحق قاسمی ہی جانیں۔ ہم جس عطا کی بات کرنا چاہتے ہیں، وہ گورنمنٹ جہاں زیب کالج سیدوشریف میں پشتو زبان و ادب کے لیکچرار ہیں۔ اُن کی الھڑ جوانی، چوڑے شانے اور چکلے سینے کے اندر حساس اور رومان پرور دل دھڑکتا ہے۔ اس محبت بھرے دل میں تڑپ، کسک اور درد کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت بھی ہروقت ہڑبونگ مچائے رکھتی ہے۔ یہی احساسات اور نازک خیالات وقتاً فوقتاً کسی اُبلتے ہوئے چشمے کی مانند صفحہ قرطاس پر بکھر جاتے ہیں جنھیں ہم شاعری کا نام دیتے ہیں۔ اُن کی یہ ہائیکو تو گونج کی مانند پلک جھپکتے میں چار دانگ پھیل کر زبان زدِ خاص و عام ہوگئی ہے۔ فرماتے ہیں۔
چا ورتہ وے چے عطا سنگ سڑے دے؟
ھغے وے خیر دے نور کہ ہر ہر سہ دے
خو دنگ سڑے دے جو پہ دِ مے خوخ دے
حال ہی میں اُن کا دوسرا شعری مجموعہ ’’دَ احساس للمے مے رنگونہ سپڑی‘‘ چھپ کر مجلد شکل میں منظر عام پہ آچکا ہے۔ جس میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ اباسین یوسف زئی جیسے استاد نے اس پہ دیباچہ لکھا ہے۔
شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ اس کی ذہنی اُپچ کسی قسم کی قیود برداشت نہیں کرتی۔ ادیب، ادب کو ادب ہی سمجھتا ہے۔ ادب برائے ادب ہو یا ادب برائے زندگی، ہر دو خانے ادیب کو محدود کر دیتے ہیں۔ لیکن بعض قلم کار ان قیود کی حدود سے ماورا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لکھاریوں میں ایک عطاء الرحمن عطاؔ بھی ہیں۔ اُن کے بیشتر خیالات ترقی پسندانہ ضرور ہیں لیکن وہ خود کو کسی ایک خانہ میں مقید نہیں رکھنا چاہتے۔ جہاں تک میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے ان کا فن روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے ہاں نت نئی بو قلمونیاں متنوع شکل میں نظر آتی ہیں۔ آپ کی شاعری تکونی موضوعات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے یعنی محبت، امن اور خوش حالی۔ آئیں، کچھ جھلکیاں دیکھتے ہیں۔
اوس درنہ زڑہ خہ صبر ولے شمہ
خدائیگو جانانہ! پخوانے نہ یمہ
پخوا بہ دومرہ درزیدو چے ما وے دغہ دے چوی
اوس نہ درزیگی ستا د تلو قیصے زڑے غوندِ شوے
خیال کی نزاکت اور خود فریبی کے مضامین روایت میں بندھتے چلے آئے ہیں جیسا کہ غالب لکھتے ہیں کہ
لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
یا یہ کہ
منہ نہ دکھلاوے نہ دکھلا پر بہ اندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلادے مجھے
بالکل اس طرح عطاؔ بھی محبوب کے معنی خیز فریب نظر کا شکار ہوکر خود کو کچھ یوں تسلی دیتے ہیں۔
نیغ نیغ کتل ئے د نفرت نخے دی
کہ دا ملگرو د اُلفت نخے دی
ہر شاعر اپنے اردگرد کے ماحول سے ضرور اثر لیتا ہے۔ اسے حالیؔ نے ’’مشاہدات‘‘ کا نام دیا ہے۔ عطاؔ اپنی دھرتی کے تلخ مشاہدات کو مزاحمتی انداز میں بیان کرکے اپنے دل کا بوجھ کچھ اس طرح ہلکا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
ہر یو ماخام او ہر سحر لہ قیامتونو تیر شوم
پہ ہرہ لار پہ ہر ڈگر لہ قیامتونو تیر شوم
یا یہ کہ
دا زلے داسے د سرو وینو باران اووریدو
چی د سپرلی د بارانونو نہ مے ساہ وتی دہ
فیض احمد فیضؔ نے لکھا تھا کہ
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بالکل اس طرح عطاؔ نے انھی کی زمین میں اپنے ترقی پسندانہ خیالات کو کچھ اس طرح باندھا ہے۔
یوہ ورز بہ لاس مے ورتہ اورسی او تار تار بہ شی
کہ ڈیر محفوظ ئے نن گریوان دے سہ خبرہ نہ دہ
اپنے وطن سوات کے حالات دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں۔
سو کہ حالات د خندیدو اجازت نہ را کوی
خو پختون زڑہ د ژڑیدو اجازت نہ را کوی
حب الوطنی کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ
زما رنڑا رنڑا وطن کے ولے
د سپین سبا خبرہ جوڑہ نہ شوہ
آپ کے کڑھنے میں قنوطیت نہیں بلکہ رجائیت ہے۔ آپ نوید صبح اور اُمید بہار کی آس لگاتے ہوئے اک نظم میں یوں لکھتے ہیں۔
داسے سپرلے چے د ھغہ پہ راتگ
زما وطن ٹول د خکلا نہ ڈک شی
داسے سپرلے مے چرتہ اونہ لیدو نشتہ دے لا
لگ بہ حصار وی خو رازی بہ دا اُمید لرمہ
مزید لکھتے ہیں
ھلہ بہ خپلے اوخکے پاکے کڑمہ
ٹول چاپیریال کے چے خندا خورہ شی
غمِ دوراں اور غم جاناں کی کیفیت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
تالہ ہم غاڑہ درکوومہ تہ لگ صبر اوکڑہ
د جانان غمہ پہ سلگو غم دوراں پاتے دے
ذرا نازک خیالی ملاحظہ ہو۔
ستا دَ بنڑو زیگ بگ او نیغ اودریدل
دَ پختنو پہ دِ خویونو حد دے
سہل ممتنع کی مثال ملاحظہ ہو۔
د زڑگو نہ ئے جنون وتلے نہ دے
گریوانونہ کہ گنڈلی لیونو دی
فراق یار کی کیفیت کو ایمائیت اور رعایت لفظی سے کس شان دار پیرا یہ میں بیان کرتے ہیں۔
بغیر لہ تا چے یم سڑے نہ یمہ
تا تہ کہ خکارم خو ژوندے نہ یمہ
صنعتِ تلمیع کا استعمال کچھ یوں کرتے ہیں۔
چی اور ئے ہم دَ مینے دَ جذبو مخکے بوستان شی
دَ عشق دَ لاروو، دَ ہمتونو بہ سہ وائی
حنیف قیس کی طرح مقامی الفاظ کے چناؤ سے اچھوتی بندش کا نرالا انداز ملاحظہ ہو۔
ما چے د اوخکو پہ اوبو ئے اوبہ خور کڑے دے
د زڑہ باڑیٔ مے زکہ خہ راٹوکولے غم دے
اور آخر میں ماورائی سوچ کا انداز بھی ملاحظہ ہو۔
دا سہ جادو دے ستا محفل کے
ژبہ گونگئی شی عقل حیران شی
الغرض آپ نے ہر موضوع پہ ہر ساز میں ہر نغمہ چھیڑا ہے۔ آپ نے بعید از قیاس تشبیہات سے اجتناب کیا ہے۔ استعارات اور کنائے کا استعمال کم ہے۔ قافیہ اور ردیف کی زمینیں سنگلاخ اور کٹھن نہیں بلکہ ان میں سلاست، روانی، نغمگی اور غنائیت موجود ہے۔ اُمید ہے یہ حساس اور نکتہ سنج نوجوان شاعر اپنے ’’احساس کی کھیتی‘‘ میں اسی طرح گل بوٹے کھلا کر اس باغ کو زر خیز بناتا رہے گا۔