سوات اپنی مخصوص تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے۔ دیگر قبائلی ریاستوں کے بر عکس سوات میں تعلیم کی شرح ابتدا ہی سے زیادہ رہی ہے۔ سوات میں پہلے سکول کا آغاز میاں گل عبدالودود کے دور میں 1922ء میں ہوا۔ پہلا گرلز سکول 1926ء میں قائم ہوا۔ اس طرح 20 کنال پر مشتمل مٹہ کالج کا شمار سوات کے اہم علمی اداروں میں ہوتا ہے۔ مٹہ کالج کے لیے رقم ریاستِ سوات کے 1967-68ء کے بجٹ میں مختص ہوئی تھی۔ کالج کی عمارت بھی ریاستی دور میں تعمیر ہوئی، لیکن باقاعدہ کلاسز کا آغاز ریاستِ سوات کے ادغام کے بعد 1971ء میں ہوا۔ کالج کا پہلا پرنسپل پروفیسر ایم ایم ہاشمی تھا۔ انہوں نے کالج میں یکم ستمبر 1971ء کو چارج سنبھالا اور 11 جولائی 1975ء تک پرنسپل رہے۔ اس کے بعد جو پرنسپل صاحبان آئے ہیں، ان میں چندکے نام یہ ہیں: پروفیسر محمد دانشمند خان، پروفیسر بادشاہ زادہ الاظہری، پروفیسر عبدالقیوم، پروفیسر مسیح الرحمان اور ڈاکٹر شیر عالم خان وغیرہ۔
کالج کا پہلا چیف پراکٹر شیر افگن خان رہا ہے۔ وہ 1971ء سے 1975ء تک چیف پراکٹر رہا۔ اس کے بعد چند ایک چیف پراکٹروں کے اسمائے گرامی یہ ہیں: لطیف خان، شفیق الرحمان، محمد عالم خان، دوا خان، میاں محب جان، مسعود خان، خورشید، فضل سبحان افغانی وغیرہ۔
پہلی دفعہ گیارہویں جماعت میں داخلے 1971ء میں شروع ہوئے اور ڈگری کلاسز میں پہلی دفعہ داخلے 1973ء میں شروع ہوئے۔ 2010ء میں کالج کو باقاعدہ پوسٹ گریجویٹ کا درجہ ملا۔ پہلی دفعہ 2010ء ہی میں کالج میں بی ایس زوالوجی اور کمپیوٹر سائنس میں داخلے شروع ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کالج میں بی ایس شماریات میں بھی داخلہ کی منظوری ملی، لیکن طلبہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابھی تک شماریات میں بی ایس کا آغاز نہیں کیا گیا ہے۔
کالج کی پہلی عمارت میں دو منزلہ سائنس بلاک، لائبریری، جناح ہال، ایڈمنسٹریشن بلاک، مین بلاک وغیرہ شامل تھے۔ سوات میں عسکریت پسندی کی وجہ سے کالج کو بڑا نقصان پہنچا۔ اسی دوران میں 13 مئی 2009ء کوپرانے سائنس بلاک، جناح ہال اور مین لائبریری کی عمارتوں کو گرایا گیا، لیکن بعد ازاں 2013ء میں سائنس بلاک، لائبریری اور جناح ہال کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک علاحدہ ٹیچنگ بلاک بھی تعمیر کیا گیا۔
کالج میں ایک بڑی لائبریری بھی ہے۔ اس میں سٹڈی روم اور کانفرنس روم موجود ہیں۔ لائبریری کو دوبارہ تعمیر کرکے ڈھیر ساری کتب خرید لی گئی ہیں۔
کالج میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے ایک علاحدہ بلاک بھی ہے، جو 2006ء میں تعمیر کیا گیا ہے۔ سائنس بلاک میں سائنس کی لیبارٹریاں ہر قسم کے سامان سے لدی پڑی ہیں۔
سوات میں عسکریت پسندی سے پہلے یہاں ایک عمدہ ’’بوٹانیکل گارڈن‘‘ بھی موجود تھا جس کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔
کالج میں طلبہ کے کھیل کود کے لیے کرکٹ، والی بال، ہاکی وغیرہ کے بڑے بڑے گراؤنڈ موجود ہیں۔ اِن ڈور گیموں کی سہولت بھی موجود ہے۔
کالج کے ساتھ پہلی ہی سے طلبہ اور سٹاپ کے لیے ہاسٹل موجود تھے۔ اس کے علاوہ پروفیسروں کے لیے آٹھ بنگلوں پر مشتمل رہائشی کالونی بھی موجود تھی۔ اب یہ دونوں ہاسٹل اور پروفیسر کالونی پاک آرمی کی تحویل میں ہیں۔ اس کے لیے آرمی اور محکمۂ اعلیٰ تعلیم کے حکام کے درمیان بات چیت جاری ہے کہ ہاسٹل اور بنگلہ جات واپس کالج کو مل جائیں۔
کالج میں ہم نصابی اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے چار سوسائٹیاں کام کرتی ہیں۔ ان میں پاکستان سٹڈی سوسائٹی، ماندور ادبی ٹولنہ، کیریکٹر بلڈنگ سوسائٹی اور بلڈ ڈونر سوسائٹی وغیرہ شامل ہیں ۔
مٹہ کالج کا علمی و ادبی مجلہ ’’ماندور‘‘ پہلی دفعہ 2002-2001ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ 2006ء تک مسلسل شائع ہوتا رہا، لیکن 2006ء کے بعد سوات کے حالات خراب ہوتے ہی یہ رسالہ بھی بند ہوگیا۔ آخرِکار 8 سال بعد 2014ء میں یہ رسالہ دوبارہ شائع ہونے لگا۔ اِن شا اللہ یہ اسی طرح جاری رہے گا۔ پہلی دفعہ 1979-1978ء میں بھی کالج میں ایک رسالے کی اجرا کی کوششیں کی گئی تھیں اور ’’نوے رنڑا‘‘ کے نام سے ایک رسالہ چھپ تو گیا تھا، لیکن بقول پروفیسر محمد علی شاہ صاحب کے ’’یہ رسالہ طلبہ کے ہاتھوں میں نہ تھمایا جا سکا۔‘‘
اس وقت کالج میں انٹر لیول، ڈگری لیول اور بی ایس لیول پرتقریباً دو ہزار طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔