درسِ نظامی کے بانی اورنگزیب کے عہد کے ملا ’’نظام الدین‘‘ تھے۔ انہوں نے مدرسے کے نصاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیاتھا، یعنی منقول اور معقول۔
منقول میں قرآن شریف اور حدیث کی تعلیمات پر زور دیا جاتا تھا۔جب کہ معقول میں فقہ اور منطق۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ منقول کی تعلیم حاصل کرنے والے مسجدوں میں امام اور واعظ بن جائیں جب کہ معقول کے فارغ التحصیل طلبہ قاضی، مفتی اور محتسب کے عہدوں پر فائز ہوجائیں۔
یہ درسِ نظامی آج تک کسی نہ کسی شکل میں ہمارے مدرسوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اِسی خاندان کے علما کو اورنگزیب نے لکھنؤ میں واقع ایک فرنگی کا تعمیر شدہ محل دیا تھا۔ اس لیے آج تک یہ فرنگی محلی کہلاتے ہیں۔
(’’تاریخ کی خوشبو‘‘ از ’’ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، پہلی اشاعت، 2019ء، صفحہ نمبر 121 سے انتخاب)