پشتو اور اردو کے نامور ادیب اور دانشور شیر افضل خان بریکوٹی صاحب بھی 31 مارچ 2020ء کو اس جہانِ فانی سے رحلت کرکے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انہیں ’’مرحوم‘‘ لکھتے ہوئے قلم ساتھ نہیں دے رہا ہے، لیکن یہی حقیقت ہے کہ اس فانی زندگی کا یہی انجام ہے۔ کسی بھی ذی روح کو یہاں ثبات نہیں، ذاتِ جاوداں صرف خالق و مالک ہے۔
بریکوٹی صاحب میرے محسن اور مشفق بزرگ تھے۔ ان کے ساتھ میرا تعلق 1995ء میں اس وقت بنا تھا جب ان کی چھے کتابیں بہ یک وقت زیورِ طبع سے آراستہ ہوئیں۔ وہ میری دکان ’’شعیب سنز‘‘ تشریف لائے اور اپنی کتابیں فروخت کے لیے رکھوائیں۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ میرے کاؤنٹر کے سامنے بنچ پر پورے اعتماد کے ساتھ یوں براجمان ہوئے جیسے وہ یہاں پہلے بھی مستقل آتے رہے ہوں اور میرے ساتھ ان کا دیرینہ تعلق ہو۔ جب ہمارے مابین تعارف کا تبادلہ ہوا، تو پھر میری کتابوں کی دکان تو جیسے ان کا مرکز بن گئی۔ وہ برطانیہ سے جب پاکستان آتے، تو ہفتے میں دو تین دفعہ میری دکان ضرور تشریف لاتے اور کئی دفعہ ہم پشاور اور اسلام آباد بھی اکھٹے جاتے رہے ہیں۔ ایک بار ان کے ساتھ پیر بابا (بونیر) بھی جاناہوا جہاں وہ اپنی کتاب ’’پیر بابا‘‘ کے سلسلے میں کچھ معلومات اور تصاویر لینا چاہتے تھے۔
انہیں جب علم و ادب سے میری دل چسپی اور وابستگی کا علم ہوا، تو ہمارے تعلقات میں بڑی قربت پیدا ہوئی اور اسی قریبی تعلق کی وجہ سے بعد ازاں میں نے ان کی چار کتابیں اپنے ادارے کے تحت شائع کیں۔ ہمارے تعلقات کا دائرہ بعد میں بتدریج اور بھی وسیع ہوتا گیا۔
اگست 2001ء میں جب مَیں پہلی بار برطانیہ کی طرف عازمِ سفر ہوا، تو ائیر پورٹ پر انہوں نے ہی مجھے ریسیو کیا اور ایک ہفتہ تک میں ان کے پاس ساؤتھمپٹن میں مقیم رہا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں ساؤتھمپٹن میں اپنا مستقل ٹھکانا بناؤں، لیکن میں لندن میں اپنے دوست سمیع اللہ خان کے پاس جانا چاہتا تھا اور وہیں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے وہ میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے خود مجھے میرے بچپن کے دوست سمیع کے پاس چھوڑنے آئے، لیکن وہ ہفتے میں دو تین مرتبہ مجھے فون کرتے اور میرے حالات سے آگاہی حاصل کرتے۔ ایک دفعہ انہوں نے برطانیہ میں اپنے ایک دوست کے نام میرے ایک کام کے سلسلے میں خط لکھا جو اتفاقاً میری نظر سے بھی گذرا۔ اس میں انہوں نے اپنے دوست کو لکھا تھا کہ ’’فضل ربی راہی میرے بیٹے ڈاکٹر جواد خان سے عمر میں ایک دو سال چھوٹے ہیں، لیکن مجھے اپنے بیٹے کی طرح عزیز ہیں۔‘‘ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مجھے کتنا عزیز رکھتے تھے۔ انہوں نے میری اہلیہ کو اپنی منھ بولی بیٹی کا درجہ دیا تھا اور جب بھی ہمارے گھر آتے، اس کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتے۔
بریکوٹی صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انہوں نے پشتو، اردو اور فارسی زبانوں کی بے شمار کتابیں پڑھی تھیں۔ یہی وجہ تھی جب وہ ادب کے کسی موضوع پر گفت گو کرتے، تو ان کی باتوں میں ایک خاص قسم کی ترتیب، روانی اور مٹھاس ہوتی، ان کی باتیں سن کر یوں لگتا تھا جیسے سلیقے سے لکھی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں۔ مَیں جب ابھی برطانیہ منتقل نہیں ہوا تھا، تو ان کی طرف سے ہفتہ دس دن میں میرے نام ایک خط ضرور آتا۔ ان کے ہر مکتوب میں علم و ادب کے کسی نہ کسی موضوع پر عالمانہ بحث ہوتی، جو میرے علم میں قابلِ قدر اضافے کا سبب بنتی۔ وہ بہت عمدہ اور علم و ادب کی چاشنی سے مملو اردو لکھتے۔ اپنی بات کو وزن دینے کے لیے اردو، پشتو اور فارسی اشعار کا برمحل استعمال کرتے۔ یوں ان کے مکتوبات، علم و ادب کا مرقع ہوتے۔ مختلف بڑے ادیبوں اور مشاہیر کے نام ان کے خطوط کا ایک مجموعہ مَیں نے مرتب کیا ہے، جسے مناسب وقت پر کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ ہے۔
وہ علامہ اقبال کے شیدائی تھے۔ انہوں نے ’’اقبال میرا ہم سفر‘‘ کے نام سے علامہ اقبال کی زندگی اور شاعری پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے جس میں علامہ کے فکر وفن پر مختلف موضوعات کے تحت تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں علامہ اقبال کی شاعری کے ارتقائی سفر پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ علامہ اقبال کے فکر و فن کا عالمانہ جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے ان کی اردو اور فارسی شاعری کے خوب صورت حوالے دیے ہیں اور علامہ کی شخصیت کے مخفی پہلو آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں تو علامہ اقبال کی شخصیت و شاعری پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں لیکن ’’اقبال میرا ہم سفر‘‘ بریکوٹی صاحب کی علامہ اقبال کے بارے میں لکھی ہوئی اپنی نوعیت کی منفر کتاب ہے ۔
’’د پختو شعرو ادب تاریخ‘‘ (پشتو شعرو ادب کی تاریخ) کے نام سے انہوں نے پشتو زبان کے قدیم و جدید شعری اور نثری ادب کا جامع جائزہ لیا ہے جس کا کچھ حصہ پشاور یونی ورسٹی کے ایم اے پشتو کے نصاب میں بھی شامل ہے۔
اردو زبان میں بریکوٹی صاحب کی چھے کتابیں شائع ہوئی ہیں۔:
٭ تعارفِ سوات۔
٭ بایزید انصاری، پیر روخان۔
٭ اقبال میرا ہم سفر۔
٭ پیر بابا۔
٭ مولانا اخون درویزہ۔
٭ تاریخِ روزگار (خود نوشت)۔ جب کہ پشتو میں وہ پانچ کتابوں کے مصنف ہیں۔
’’تعارفِ سوات‘‘ بریکوٹی صاحب کی پہلی کتاب ہے جس میں انہوں نے سوات کی قدیم و جدید تاریخ خوب صورت پیرایے میں بیان کی ہے۔ یہ کتاب چوں کہ ریاستِ سوات کے دور میں لکھی گئی تھی، اس لیے اس میں زیادہ تر معلومات ریاستی دور کے متعلق فراہم کی گئی ہیں۔ اس میں ریاستِ سوات کے قیام و استحکام، اس کے سیاسی و اداراتی ڈھانچے، نظامِ حکومت اور تعمیر و ترقی کے بارے میں تفصیلاً لکھا گیا ہے۔ اسے پڑھ کر ریاستِ سوات کا ایک جامع خاکہ اور والئی سوات کی غیرمعمولی شخصیت کی ایک مکمل تصویر سامنے آجاتی ہے ۔
بایزید انصاری (پیر روخان):۔ پختونوں میں بایزید انصاری کی شخصیت آزادی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ وہ اپنے دور کے نہ صرف حریت پسند تھے بلکہ ایک معروف مذہبی اور روحانی شخصیت بھی تھے۔ وہ اپنی ہم عصر مذہبی شخصیت مولانا اخون درویزہ سے مذہبی معاملات میں بھی برسرِپیکار رہے اور اس دور کے غاصب مغل حکم رانوں سے بھی نبرد آزما رہے۔ وہ اخون درویزہ کے مکتبۂ فکر میں ’’پیرِ تاریک‘‘ کے نام سے مشہور تھے اور اپنے پیرو کاروں میں ’’پیر روخان‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ پیر روخان کی لکھی ہوئی کتاب ’’خیر البیان‘‘ پشتو زبان کی اوّلین نثری کتابوں میں سے ہے۔ پختونوں کی آزادی کی عَلم بردار اپنے دور کی اس عظیم سیاسی و مذہبی شخصیت کے بارے میں بریکوٹی صاحب کی یہ کتاب ان کی زندگی اور جدو جہد کے بارے میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے جسے ’’اباسین آرٹس کونسل‘‘ کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
’’پیر بابا‘‘ بریکوٹی صاحب کی ایک تاریخی اور تحقیقی کتاب ہے جو سوات اور بونیر کی عظیم روحانی شخصیت سید علی ترمذی المعروف پیر بابا کے متعلق ہے۔ پیر بابا نے خلقِ خدا کو نیکی اور راستی کا درس دیا۔ لوگوں کی روحانی پاکیزگی کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا راستہ دکھایا۔ ان کا مزار ضلع بونیر میں واقع ہے جو مرجع خلائق ہے۔ بریکوٹی صاحب کی یہ کتاب اس دور کی سیاسی، مذہبی اور روحانی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے پیر بابا کے حالاتِ زندگی تاریخی تناظر میں بیان کیے ہیں اور ہندوستان کے مغل بادشاہ ہمایوں کے عہد سے لے کر میاں گل جہاں زیب والئی سوات کے زمانہ تک حالات اور واقعات تاریخ کے تناظر میں ضبط تحریر کیے ہیں۔
’’مولانا اخوند درویزہ‘‘ سوات (بونیر) کی عظیم روحانی شخصیت پیر بابا کے ماذون تھے۔ وہ خود بھی اپنے دور کی ایک غیرمعمولی روحانی اور مذہبی شخصیت تھے۔ سوات، بونیر اور پشاور میں ان کو غیر معمولی مذہبی اثر و رسوخ حاصل تھا۔ اخوند درویزہ اور پیر روخان ہم عصر تھے، اور مذہبی افکار کے معاملے میں دونوں کے مابین بڑے بڑے مذہبی مناظرے بھی ہوتے تھے۔ اخوند درویزہ کے پیروکاروں نے ہی پیر روخان کو پیرِ تاریک کا نام دیا تھا۔ اخوند درویزہ نے اپنی مذہبی تعلیمات کے ذریعے اپنے دور میں عام لوگوں کی روحانی بالیدگی کے لیے کام کیا اور ان میں غلط رسوم و رواج ختم کرنے کے لیے اپنے مذہبی رسوخ سے کام لیا۔ انہوں نے پشتو زبان میں ایک کتاب ’’مخزن‘‘ بھی لکھی ہے جسے پشتو کی اوّلین نثری کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کتاب کی پشتو پر فارسی زبان کے اثرات بھی ہیں۔ بریکوٹی صاحب نے ان ہی روحانی شخصیت کی زندگی اور افکار پر ایک جامع اور مفصل کتاب لکھی ہے جس میں اس دور کی روحانی اور مذہبی تاریخ کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔
’’تاریخِ روزگار‘‘:۔ یہ بریکوٹی صاحب کی خود نوشت ہے جس میں انہوں نے اپنے مشاہدات اور یادداشت پر مشتمل حالات اور واقعات بیان کیے ہیں۔ اس کتاب کے تین حصے ہیں۔ ایک حصے کا تعلق ان کی زندگی کے ابتدائی ایام سے ہے اور کتاب کا یہ گوشہ، سوات میں والئی سوات کے دور میں گزارے گئے روز و شب کے علاوہ کراچی میں ان کی مختلف سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ ان کے برطانیہ میں نصف صدی پر مشتمل گزاری گئی زندگی سے متعلق ہے۔ جب کہ اس کا تیسرا حصہ ان کے مختصر سفرناموں پر مشتمل ہے۔ بریکوٹی صاحب نے لندن میں رہتے ہوئے پاکستان کی مشہور سیاسی، علمی و ادبی اور مذہبی شخصیات کی مہمان داری کی تھی جس کے احوال اس کتاب کا خصوصی طور پر قابلِ مطالعہ گوشہ ہیں۔ یہ دل چسپ کتاب ایک کامیاب شخص کی زندگی کے نشیب و فراز اور اس کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا خوب صورت مرقع ہے جس میں قارئین کے لیے سوچنے سمجھنے اور بریکوٹی صاحب کی عملی اور فعال زندگی سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
اس وقت میرے ذہن میں بریکوٹی صاحب کے ساتھ وابستہ بہت سی شیریں یادیں امڈی چلی آ رہی ہیں۔ ایک دن بریکوٹی صاحب نے مجھے فون کیا کہ وہ ساؤتھمپٹن سے لندن آ رہے ہیں اور وہ میرے ہاں تین چار دن تک مقیم رہیں گے۔ اس وقت میں لندن کے والتھم سٹو میں مقیم تھا۔ میرے پاس کونسل کا عطا کردہ بہت اچھا فلیٹ تھا جو ایک نہایت سرسبز و شاداب علاقے میں واقع تھا۔ انہوں نے جس وقت اپنی آمد کی اطلاع دی تھی، اس وقت میں اپنے جاب کی جگہ پر تھا۔ اس لیے مَیں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا کہ جب بریکوٹی صاحب والتھم سٹو ریلوے اسٹیشن پہنچ جائیں، توانہیں وہاں سے پک کرکے فلیٹ پہنچا دیں۔ شام کو جب مَیں فلیٹ پہنچا، تو بریکوٹی صاحب تشریف لا چکے تھے۔ مَیں معمول کے مطابق گھرکی ضروری اشیا اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ ان میں سے کچھ چیزیں فریج میں رکھنے کی غرض سے جب میں نے فریج کا دروازہ کھولا، تو اس میں خور و نوش کے ڈھیر سامنے پڑے تھے۔ میرا فلیٹ چوں کہ تین بیڈ، کیچن اور ایک بڑے سیٹنگ روم پر مشتمل تھا، اس لیے میرے ساتھ تین اور دوست بھی رہ رہے تھے۔ مَیں نے ایک ساتھی سے پوچھا کہ آج اتنا ڈھیر سارا سامان کون لایا ہے؟ کیوں کہ معمول کے مطابق زیادہ تر ضرورت کی چیزیں میں ہی لے کر آتا تھا۔ ساتھی نے جواب دیا کہ بریکوٹی صاحب اپنے ساتھ یہ سامان لے آئے ہیں۔ مَیں نے خفگی کے ساتھ بریکوٹی صاحب سے عرض کیا کہ آپ یہ سامان کیوں لے آئے ہیں، کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ آپ کی چند دنوں تک خاطر تواضع اور مہمان نوازی تک نہ کرسکیں؟ انہوں نے جواباً سختی سے کہا کہ مَیں نے آپ کے ساتھ چند دنوں تک رہنا ہے، اس لیے مَیں اپنی طرف سے کچھ چیزیں لے آیا ہوں۔ مزید کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے فلیٹ میں ہر وقت دوستوں کا جم گھٹا لگا رہتا ہے، یہ سوات نہیں ہے کہ آپ اتنی مشکل سے کمائی ہوئی رقم یوں مہمانوں کی خاطر تواضع پہ لٹاتے پھریں۔ انہوں نے مجھے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کا یہی معمول رہا، تو آپ کوئی بچت نہیں کرسکیں گے۔ مَیں نے احتراماً بحث سے پرہیز کیا، لیکن ان سے عرض کیا کہ آئندہ آپ نے اگر میرے پاس آنا ہو، تو براہِ کرم خالی ہاتھ آئیے گا، ورنہ آپ کو ہم سب دوستوں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل بریکوٹی صاحب کا یہ طرزِ عمل ان کا اپنے چھوٹوں کے ساتھ بے پناہ شفقت و محبت کا مظہر تھا۔
میرے ساتھ مقیم دوستوں کی معمر بریکوٹی صاحب سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ اس لیے وہ ڈر رہے تھے کہ اب وہ ان کے سامنے اپنی روزمرہ کی بے تکلفانہ گپ شپ نہیں لگاسکیں گے۔ کیوں کہ رات کو کئی دوسرے دوست بھی ہمارے پاس آجاتے اور ہم رات گئے ہر موضوع پر بحث مباحثہ کرتے اور کبھی کبھی اس میں اعتدا ل کی حد بھی پار کرجاتے۔ مَیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بریکوٹی صاحب چھوٹوں کے ساتھ چھوٹے اور بڑوں کے ساتھ بڑے بن جاتے ہیں، آپ لوگ فکر نہ کریں۔ بریکوٹی صاحب آپ لوگوں کو بور نہیں ہونے دیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ بریکوٹی صاحب ہر موضوع پر اتنی بے تکلفانہ گفت گو کرتے کہ وہ بولتے اور ہم ہمہ تن گوش ہوکر سنتے۔ اس کے بعد سب بریکوٹی صاحب کے ساتھ ایسے گھل مل گئے کہ ہم ہر موضوع پر ان کے ساتھ بحث مباحثہ کرنے لگے۔ کبھی کبھار ہم بریکوٹی صاحب کے سامنے انگریزوں کے متعصبانہ رویے کا تذکرہ کرتے، تو وہ باقاعدہ ناراض ہوجاتے۔ ایک دن جب ہم سب نے بہ یک زبان کہا کہ انگلینڈ نے متحدہ ہندوستان پر حکومت کرکے لوٹ مار کی ہے، اس لوٹ مار کی دولت سے ہی انہوں نے اپنا ملک ترقی یافتہ بنایا ہے اور برصغیر پاک وہند میں اس وقت جو غربت اور پس ماندگی نظر آرہی ہے، اور کشمیر کی شکل میں جو تنازعہ دو ملکوں کے درمیان دردِ سربنا ہوا ہے، اس کی ذمے داری بھی انگریزوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے ہماری بات نہایت سکون سے سنی اور اطمینان سے جواب دیا کہ برصغیر پاک وہند میں جومربوط انفراسٹرکچر اور بعض شعبوں میں ترقی کی جو شکل آپ لوگوں کو نظر آرہی ہے، یہ اس وقت کے انگریز حکم رانوں کی مہربانی ہے، وہ اگر وہاں حکومت نہ کرتے، تو برصغیر پاک و ہند میں اس وقت غربت و پس ماندگی کی بدترین شکل موجود ہوتی۔ ہم انہیں چھیڑنے کے لیے جب متحدہ ہندوستان میں 1857ء کے انگریزوں کے مظالم بیان کرتے، تو وہ غصے میں آجاتے اورگویا ہوتے کہ تم لوگ یہاں کے محفوظ اور ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہو، یہاں کی جدید سہولتوں سے مستفید ہوتے ہو اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ اچھی ملازمتیں بھی کرتے ہو لیکن پھر بھی انگلینڈ کی برائی کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ تو سراسر احسان فراموشی ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بریکوٹی صاحب کی شخصیت ایسی ہر دل عزیز تھی کہ وہ ہمارے ساتھ ہماری عمر کے بن جاتے، اور ہماری پسند اور دل چسپی کے موضوعات پر گفت گو کرنے لگتے۔ جب وہ واپس ساؤتھمپٹن چلے گئے، تو ہمیں اپنا فلیٹ کئی دنوں تک بہت سُونا سُونا سا محسوس ہو رہا تھا۔ ان کی مزے مزے کی باتوں نے ہمارے فلیٹ میں خوب رونق پیدا کی تھی۔
ایک دفعہ اردو کے صاحبِ اُسلوب ادیب اور کالم نگار استادِ محترم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان صاحب امریکہ سے واپسی پر چند دنوں کے لیے انگلینڈ تشریف لائے، تو وہ بریکوٹی صاحب کے پاس ٹھہر گئے۔ ڈاکٹر اعوان صاحب انڈیا آفس لائبریری دیکھنے کے متمنی تھے۔ بریکوٹی صاحب کے انڈیا آفس لائبریری کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر مسٹر جی ڈبلیو شاؤسے دیرینہ تعلقات تھے ۔ اس لیے انہوں نے میرے ایک دوست سمیت چار افراد کا اپوائنمنٹ لیا جس میں مسٹر شاؤسے ملاقات بھی طے کر دی گئی تھی۔ مقررہ وقت پر بریکوٹی صاحب اور ڈاکٹر اعوان صاحب ساؤتھمپٹن سے لندن پہنچ گئے۔ انہوں نے مجھے پہلے سے بتا دیا تھا کہ وہ لندن کے وکٹوریا اسٹیشن پہنچیں گے۔ مَیں مقررہ وقت پہ وہاں موجود تھا۔ وکٹوریا ریلوے اسٹیشن بہت بڑا اور مصروف ترین اسٹیشن ہے، وہاں ہم نے موبائل پر ایک دوسرے سے رابطہ کیا، فون پہ ڈاکٹر اعوان صاحب بات کر رہے تھے اور وہ مجھے بتا رہے تھے کہ ہم فلاں جگہ پہ کھڑے ہیں، مَیں بھی انہیں کہہ رہا تھا کہ اسی جگہ پہ تو میں بھی کھڑا ہوں۔ میرے سامنے ریل گاڑیوں کے اوقات کی سکرین نظر آ رہی ہے اور بائیں طرف پھولوں کا اسٹال ہے۔ وہ بھی یہی کہ رہے تھے کہ ہمارے سامنے وہی سکرین ہے لیکن پھولوں کا اسٹال ہمارے دائیں طرف ہے۔ کچھ دیر کے بعد جب میں نے پلٹ کر دیکھا، تو ہم ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھڑے ایک دوسرے سے فون پہ بات کر رہے تھے۔ بریکوٹی صاحب اور ڈاکٹر صاحب خوب ہنسے کہ ہم قریب ہی ایک دوسرے کو پشت کیے آپس میں موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے کو تلاش کر رہے تھے۔ ہم وہاں سے انڈیا آفس لائبریری روانہ ہوگئے۔ کاونٹر پہ بریکوٹی صاحب نے اپنی اپوائمنٹ کا کہا، تو رجسٹر میں ہمارے ناموں کا اندراج پہلے سے موجود تھا۔ ہمیں وزیٹر بیج دیے گئے اور کاونٹر پر بیٹھی خاتون نے ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب سے رابطہ کرکے کہا کہ آپ کے مہمان آچکے ہیں۔ انڈیا آفس لائبریری کے ڈپٹی ڈائریکٹر بالائی منزل پہ واقع اپنے آفس سے نیچے آئے اور خود ہی ہمیں اپنے ساتھ دفتر لے گئے۔ وہ ہمارے ساتھ بڑی گرم جوشی سے پیش آئے تھے۔ ڈاکٹر اعوان صاحب نے ان سے ایک مختصر سا انٹرویو لیا اور جو معلومات انہیں درکار تھیں، ہمیں کافی پلانے کے بعد مسٹر جی ڈبلیو شاؤ ہمیں خود لائبریری کے مختلف حصے دکھانے ہمارے ساتھ ہولیے۔ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بریکوٹی صاحب کی وجہ سے وہاں ہمیں خاص پروٹوکول دیا گیا اور انڈیا آفس لائبریری کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہمیں خود برصغیر سے متعلقہ نادر مخطوطوں اور قلمی نوادرات دکھانے اور ان کا تعارف کرانے وزٹ کراتے رہے۔
غالباً 2011ء میں مجھے بریکوٹی صاحب کے بیٹے ڈاکٹر جواد خان کا فون موصول ہوا، جس میں انہوں نے یہ ناخوش گوار اطلاع دی تھی کہ بریکوٹی صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے، اور آپریشن کے بعد اب ان کی طبیعت سنبھل رہی ہے لیکن وہ مسلسل آپ کو یاد کر رہے ہیں کہ راہی کو کہہ دیں کہ وہ لندن سے فوراً میرے پاس آجائیں۔ رمضان کا مہینا تھا لیکن میں اگلے دن بریکوٹی صاحب کے پاس ساؤتھمپٹن روانہ ہوا۔ ان کے بیٹے نے مجھے بس اسٹیشن سے ریسیو کیا اور اپنے گھر لے گئے۔ بریکوٹی صاحب کی طبیعت سنبھل چکی تھی، لیکن وہ نقاہت محسوس کر رہے تھے۔ دراصل انہیں یہ فکر لاحق ہوگئی تھی کہ وہ اب زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکیں گے، اس لیے وہ اپنی خود نوشت جلد از جلد شائع کرانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھے ’’تاریخِ روزگار‘‘ کا مسودہ دیا اور وصیت کی کہ جلد از جلد اس کی اشاعت کا اہتمام کریں۔ مَیں دو دن ان کے ساتھ رہا اور انہیں تسلی دیتا رہا کہ اِن شاء اللہ آپ بہت جلد صحت یاب ہوں گے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ آپ نہ صرف اپنی اس کتاب کو شائع ہوتے دیکھیں گے بلکہ آپ مزید کتابیں بھی لکھیں گے اور وہ آپ کی زندگی میں ہی شائع ہوں گی۔ واپس لندن جاتے ہوئے بریکوٹی صاحب نے ایک معقول رقم میری جیب میں ڈال دی اور کہا کہ یہ آپ کی عیدی ہے۔ مَیں نے رقم واپس کرنی چاہی، تو ناراض ہونے لگے کہ آپ میرے لیے میرے بیٹوں جواد اور زیاد کی طرح ہیں۔ آپ انگلینڈ میں خود کو کبھی اکیلے محسوس نہ کریں۔ میرا گھر آپ کا گھر ہے اور اس کے دروازے ہر وقت آپ کے لیے کھلے رہیں گے۔
بریکوٹی صاحب کے ساتھ وابستہ یادیں بہت ہیں، لیکن اس کالم میں ان کا تذکرہ مزید طوالت کا باعث ہوگا۔ اگر زندگی نے وفا کی، تو اپنی خود نوشت میں بریکوٹی صاحب کے ساتھ وابستہ شیریں یادوں کا تفصیلی تذکرہ کروں گا۔
سوات کے ان نامور ادیب، محقق اور دانش ور نے 26 اپریل 1926ء میں سوات کے مشہور اور تاریخی گاؤں بری کوٹ میں مہابت خان کے ہاں آنکھ کھولی۔ میٹرک 1951ء میں ودودیہ ہائی سکول سیدو شریف سے کیا۔ والئی سوات سے ناراضی کی وجہ سے اپنی جنم بھومی سوات کو خیر باد کہہ کر روشنیوں کے شہر کراچی چلے گئے۔ اس لیے ایف اے انہوں نے 1956ء میں اردو کالج کراچی سے کیا۔ وہاں ان کے اساتذہ میں بابائے اردو مولوی فضل حق بھی شامل تھے۔ کراچی میں مقیم اہلِ سوات کی تنظیم ’’مجلس پختون‘‘ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انہوں نے وہاں پختونوں کے حقوق کے لیے ایک توانا آواز بلند کی۔ بعد ازاں کراچی سے انگلینڈ منتقل ہوگئے اور وہی کے ہوکررہ گئے، مگر انگلینڈ میں بھی انہیں پختون قوم کی محرومیوں نے ایک پل چَین سے بیٹھنے نہیں دیا اور ہر فورم پر پختونوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ انہیں لندن جیسے مصروف ترین شہر میں خان عبدالغفار خان، سید ابوالاعلیٰ مودودی، خان عبدالقیوم خان اور خان عبدالولی خان وغیرہ جیسی نامی گرامی شخصیات کی میزبانی کا شرف حاصل رہا۔
بریکوٹی صاحب گذشتہ 60 سالوں سے برطانیہ میں مقیم تھے۔ اس دوران انہوں نے وہاں ایک متحرک زندگی گزاری۔ مطالعہ اور تصنیف و تالیف تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ہی لیکن انہوں نے وہاں ایک بھرپور سماجی زندگی بھی گزاری۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں خصوصاً پختونوں کے لیے ان کی بڑی خدمات ہیں۔ علم و ادب کے حوالے سے ان کی تصنیفی خدمات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے ان کا نام تا دیر زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے، ان کی روح کو ابدی سکون سے نوازے اور پس ماندگان اور چاہنے والوں کو صبرِ جمیل دے، آمین!
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔