8مارچ2020ء آج اسلام آباد میں ایک ہی سڑک پر ایک ہی وقت میں دو مارچ منعقد ہوئے۔ ایک عورت مارچ تھا، جس میں بمشکل پندرہ فیصد خواتین تھیں اور باقی مرد حضرات۔ سڑک کے دوسرے کنارے مرد مارچ تھا جس میں دو چار خواتین بھی تھیں۔ دونوں ہی مارچوں میں جوش و جذبہ سے بھری اور علم و دانش سے خالی تقریروں کا موضوعِ بحث ایک ہی تھا، یعنی ’’عورت کا مقام اور اس کے حقوق۔‘‘دونوں کے درمیان سات آٹھ فٹ اونچی ایک عارضی دیوار کھڑی کی گئی تھی جس کی حفاظت کے لیے پولیس والوں اور پولیس والیوں کی بھاری نفری متعین تھی۔ دراصل عورت کی حقوق پر ملکیت کے حصول کے لیے جھگڑے کا خطرہ تھا ۔
دونوں اطرف لاؤڈ سپیکرز پر چیخ و پکار کا مقابلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی آواز تو سنائی دے رہی تھی، لیکن شور کی وجہ سے بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ دونوں نے ہی فرض کیا تھا کہ ایک فریق دوسرے فریق کی رد میں تقریر کر رہا ہے، اور مفروضوں کی بنیاد پر جوابی تقریریں داغی جا رہی تھیں۔ مرد مارچ کے شرکا کا انداز زیادہ جارحانہ تھا، لیکن عورت مارچ کے شرکا بھی ڈٹے رہنے کا عزم دہرا رہے تھے ۔
مردوں کا مارچ کچھ دینی جماعتوں کا مشترکہ مارچ تھا۔ عورتوں کے مارچ میں بھی مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے ایک ہی پنڈال میں جمع تھے۔ مردوں کے مارچ میں زیادہ تر شرکا لمبی داڑھی والے اور مذہبی وضع قطع کے تھے۔ وہ مسلمان خواتین کی عظمت کی کہانیاں سنا رہے تھے اور دین کی روشنی میں عورت کے اونچے مقام اور کسی حد تک تقدس کا دعویٰ کر رہے تھے۔ عورت مارچ کے شرکا میں ٹائٹس پہنی الٹرا ماڈرن خواتین بھی تھیں، اور کچھ باحجاب اور پردہ نشین بھی۔ البتہ عورت مارچ کے مرد شرکا کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس قسم کے تھے۔ ایک شریک مارچ نے خود کہا کہ زیادہ تر شرکا دراصل شکاری ہیں جو آزاد خیال خواتین کے جم غفیر کی آرزو لے کر آئے ہیں، لیکن خواتین کی کم تعداد دیکھ کر انہیں خاصی مایوسی ہورہی ہے۔
مَیں کافی دیر دونوں مارچوں کے درمیان کھڑا سوچتا رہا۔ میری طرح باقی لوگ بھی دو انتہاؤں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر مارچ کے حق میں بات کرو، تو دین دار لوگ بے دینی پر اُتر آتے ہیں۔ وہ آپ کی دنیا و آخرت دونوں پر خطِ تنسیخ کھینچ لیتے ہیں۔ ان کے جوابی تہمتوں اور اظہارِ غیض و غضب سے آپ کی آخرت تو شاید خراب نہ ہو، لیکن دنیا ضرور خراب ہو سکتی ہے۔ اس طرح اگر آپ کسی بھی وجہ سے مارچ کے خلاف رائے رکھتے ہیں، تو بڑے بڑے آزاد خیالوں کی لبرلزم اور سیکولرزم کی قلعی کھل جاتی ہے، اور وہ صاف صاف فتویٰ بازی پر اُترآتے ہیں۔ دونوں اطراف میں مخلص لوگ موجود ہیں جو عورت کی حالتِ زار کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، لیکن ہمارا موضوعِ بحث وہ لوگ ہیں، جو ہر معاشرتی دکھ کو بنیاد بنا کر اپنا منجن بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں اطراف میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جودوسروں کی عورتوں کے لیے تو حقوق، آزادی اور تقدس چاہتے ہیں لیکن اپنی عورتوں کو جائداد میں حصہ دیتے ہیں، تعلیم میں اور نہ زندگی میں۔
ایک بات بہرحال واضح ہے کہ آج اگر مذہبی لوگ عورت کے حقوق کے لیے باہر نکلے ہیں، تو یہ عورت مارچ ہی کی برکت ہے۔ گذشتہ سال کے بدتمیز عورت مارچ نے بڑے بڑے غیرت مندوں کو ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا اعلیٰ مقام یاد دلایا ہے۔ آج کے عورت مارچ میں قابلِ اعتراض نعرے نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہ دین داروں کی اظہارِ ناراضی کا اچھا نتیجہ ہے۔
عورت کی حالتِ زار قومی توجہ کی مستحق ہے۔ آج ایک ہی سڑک کے دو کناروں پر ہزاروں مرد وخواتین ایک ہی موضوع پر احتجاج کر رہے تھے، لیکن ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں تھا۔ جب تک ہم ایک دوسرے پر چیخنا بند نہیں کرتے، ایک دوسرے کی بات سننا نہیں سیکھتے، اس وقت تک ہم اگر لاکھوں کی تعداد میں بھی سڑک پر نکل آئیں، خیر سے زیادہ شر کا خطرہ رہے گا ۔ کاش، یہ بات سمجھ داروں کی سمجھ میں آجائے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔