سر سید احمد خان اپنی ایک تقریر میں کہ جو انہوں نے مئی 1866ء علی گڑھ میں کی، ماضی کی حکومتوں کا انگریزی دور سے مقابلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’مَیں سمجھتا ہوں کہ اس زمانہ کی حکومتیں نہ مسلمانوں کی شرع کے مطابق تھیں اور نہ ہندوؤں کے قانون کی پابند تھیں۔ بڑا اصول اُن وقتوں کی حکومتوں کا یہی تھا کہ جو زبردست ہے، وہ کمزور پر غالب رہے اور جس طرح پر چاہے زیادتی اور جبر اور غضب سے صرف اپنے عیش و آرام کے لیے زیردستوں کے حقوق کا تصرف کرے۔ مدت تک ہندوستان پر یہی زمانہ گزرا۔ پھر خدا کی مرضی ہوئی کہ ہندوستان ایک دانش مند قوم کی حکومت میں دیا جائے جس کا طرزِ حکومت زیادہ تر قانون کا عقلی پابند ہو۔ بے شک اس میں بڑی حکمت خدا تعالیٰ کی تھی۔ کیوں کہ جب ہندوستان میں مختلف قوم اور مختلف مذہب کے لوگ آباد تھے، تو اس خدا کو جو کرسچین کا بھی ایسا ہی خدا ہے جیسا کہ ہندو مسلمان کا، ضرور ایسی حکومت ہندوستان میں قائم کرنی چاہیے تھی جو زیادہ تر عقلی قوانین کی پابند ہو۔‘‘
(ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیف ’’برطانوی راج‘‘، مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، ساتواں ایڈیشن 2016ء، صفحہ 44 سے انتخاب)