بہتی گنگا میں اشنان فرمانے والے

مَیں سمجھتا ہوں کہ سیاسی پارٹیوں کی عجلت میں کیے گئے غلط فیصلوں کا خمیازہ عوام دہائیوں تک بھگتتے رہتے ہیں۔ ہونا چاہیے تھا کہ پہلے عوامی مسائل جیسے مہنگائی، غربت میں کمی لانے کے لیے کوئی قانون بنایا جاتا، اس کے بعد کسی فردِ واحد کے لیے قانون بنایا جاتا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانون بنانے کا عمل قانون ساز اسمبلی کی نااہلی کو ثابت کرتا ہے۔ ضمناً عرض ہے کہ سپریم کورٹ قانون کی تشریح کا فریضہ سر انجام دیتی ہے، لیکن مجبوراً ان کو بھی حکومتی معاملات میں ’’انٹر فیر‘‘ کرنا پڑتا ہے ۔
سیاست دان جن کو پاکستانی عوام منتخب کرتے ہیں، اور ان کو اقتدار، طاقت اور اختیار کے مراکز کا حق دار ٹھہراتے ہیں، وہ بدلے میں معاشی مافیاز، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو تحفظ دیتے ہیں۔ عوام کے دیے گئے مینڈیٹ کے ساتھ خیانت کرتے ہیں اور لوگوں کے ووٹ کی توہین کر کے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ خیانت گر سیاسی امرا، سول اور ملٹری بیوروکریسی کے کاسہ لیس بنے ہوئے ہیں۔ صرف ایک ادارے کو مزید طاقتور بنانے کے لیے پارلیمنٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی اس کئی مثالیں موجود ہیں۔ کبھی نیشنل ایکشن پلان، ان ایڈ آف سول پاؤر، کاؤنٹر ٹیرر ازم، نیکٹا اور اس کے علاوہ سی پیک فورس وغیرہ ابھی ماضی قریب کے واقعاتی قوانین ہی تو ہیں۔
پارلیمنٹ میں چڑھتے سورج کے پجاری کی آؤ بھگت کی علامات آج کی تاریخ میں دیکھی گئیں۔ غلامانہ ذہنیت کے لیے یہی ایک مثال کافی ہے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس جرم میں باقاعدہ طور پر شریک ہیں۔ کسی ایک پارٹی پر اس کا الزام لگانا درست نہیں ہوگا۔
اس مذکورہ منظر نامے میں عوام کو اپنی طاقت اور صلاحیت کو ایک دوسرے سے سچ بولنے کے ذریعے اپنے حالات میں یکسر تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس کرنا ہوگی۔ کرپٹ سیاسی مافیاز، سول اور ملٹری بیورو کریسی کو اس کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے کہ وہ ان پرحکمرانی کے حق دار بن سکیں اوران کے بہتر مستقبل کے فیصلے بغیر عوامی تائید کے کر سکیں۔
اس طرح تمام سیاسی ورکرز کو چاہیے کہ ان کا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو، وہ آج کے ترمیمی ایکٹ پر اپنی سیاسی پارٹی پر دلیل کے ساتھ تنقید کریں، تاہم میرا خیال ہے کہ اس عمل کو ’’جسٹفائی‘‘ کرنا سراسر نا انصافی ہے۔ کیوں کہ فردِ واحد کے لیے قانون بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ قانون بھی وہ جو سر پر کھڑے پہرہ دار کے زور پر لاگو کیا جائے، اور ترمیمی قانون بھی اس شخص کے لیے بنایا جائے جو ریٹائرمنٹ کے قریب تر ہو۔
افسوس آج کی تاریخ میں ملک کی سب سے بڑی پارٹیاں اپنے نظریات سے منحرف ہوگئیں۔ بوٹ کتنے وزنی ہیں، اور ووٹ کا وزن کیا ہے؟ آج سب کچھ واضح ہوگیا۔ زیادتی ہوگی کہ ان پارٹیوں کو یاد نہ کیا جائے جنہوں نے ترمیمی بل کی بھرپور مخالفت کی، سلام ہے انہیں۔ اس مد میں جماعت اسلامی، پشتون تحفظ موومنٹ، جے یو آئی اور پختونخوا میپ کی اور ان پارٹیوں کی اس عمل پر جتنی بھی ستائش کی جائے،کم ہے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔