گلی کوچوں کی صحافت میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ جہاں بھی سرچ کریں، جس پیج یا کسی کے فیس بک اکاونٹ پر جائیں، تو ہر طرف نئی خبریں اور معلومات آپ کو ملیں گی۔ کیوں کہ سوشل میڈیا نے عام لوگوں کو بھی پلیٹ فارم فراہم کرکے صحافت کے شعبے کو مزید وسیع کردیا ہے۔ اسی سوشل میڈیا کی اہمیت کو دیکھ کر اب ہر صحافتی ادارے نے سوشل پیج بنا کر اپنی سرگرمیوں سے لوگوں کو آگاہ کرنے پر کام شروع کر دیا ہے۔ مذکورہ پیجوں کے ذریعے آسانی سے لوگوں کو اپنے ادارے سے باخبر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور لوگ بھی باآسانی ہر طرف سے معلومات اکٹھی کرسکتے ہیں۔ اب اخبار پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ ٹی وی دیکھنے کے لیے وقت نکالنے کی، بس جو دیکھنا چاہیں ایک کلک پر مختلف پیجز پر جائیں اور معلومات حاصل کریں۔ معلومات حاصل کرنے میں بیشتر اوقات اپنے وال سے شیئر کرنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے، جس سے صارف کے دوست بھی مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اسی ’’شیئر در شیئر‘‘ کے دوران ایک عام آدمی بھی صحافت کے شعبے میں چھلانگ لگا کر ’’سوشل میڈیائی صحافی‘‘ بن جاتا ہے، لیکن اُس بھلے مانس کو صحافت کی حساسیت کا پتا نہیں ہوتا، بلکہ جہاں سے جو بھی مواد اکٹھا کیا گیا، اس میں اپنی رائے اور تجویز شامل کرکے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔ اب اسے یہ پتا نہیں کہ یہ وہ ٹھیک کرہاہے یا غلط، یا ایسا کرنے سے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ بس لائک اور فالوورز کے چکر میں معاشرے سمیت اپنے وقت کا ضیاع اور بہت بڑا نقصان کر بیٹھتا ہے، جو اسے عملاً نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ خبروں کی شکل میں اکثر پراپیگنڈے ہوتے ہیں جو ذہن اور سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں، اور جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بس لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے دور کی کوڑی لائی جاتی ہے۔
قارئین، اس قسم کے تجربات سے ہم گزرچکے ہیں اور آگے بھی گزرنے کا خدشہ ہے۔ بھلے ہی مجھ سے اتفاق نہ کیا جائے مگر یہ حقیقت ہے کہ صحافت وہ واحد شعبہ ہے جس کے چیک اینڈ بیلنس پر کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ باقی تقریباً تمام اداروں میں یہ نظام تھوڑا بہت ہے، اور ان پر نظر رکھا جاتا ہے، لیکن اس بدقسمت ادارے میں مذکورہ نظام بالکل نہیں ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس شعبہ سے وابستہ لوگ معاشرے کو کیا دے رہے ہیں؟ آیا وہ صحافت کرہے ہیں یا اس شعبے کو ڈھال بنا کر اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں؟ جس سے اس کا حلیہ بگڑ چکا ہے اور مزید بگڑتا جا رہا ہے۔
ویسے تو صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔اور اگر ستون نہ ہوں، تو چھت گرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ ستون کھوکھلا ہوچکا ہے، اسے دیمک لگ چکا ہے، جو کسی بھی وقت گر کر پوری چھت کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لیکن پھر بھی اس ستون کے کھوکھلا ہونے پر ریاست نے غور نہیں کیا۔ اور نہ اس سے وابستہ افراد کو کسی پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور ان کی اصلاح کرنے یا حساسیت کے حوالے سے بتایا گیا ہے، یا ان کو تربیت دینے پر ہی غور کیا گیا ہے۔ اکا دکا غیر حکومتی تنظیمیں تربیت پر کام کرتی تو ہیں، لیکن وہ بھی جان پہچان اور اقربا پروری کا مظاہرہ کرکے صحافت سے وابستہ اپنے من پسند افراد کو تربیت دیتی ہیں۔ زیادہ تر صحافی اس کے بارے میں لاعلم رہتے ہیں۔ انہیں یہ پتا نہیں ہوتا کہ ایسے بھی کچھ ادارے ہیں جو ہماری بہتری کے لیے کام کرتے ہیں یا ان کی تربیت سے وہ بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹس بھی پڑھنے پڑھانے کے سوا عملی صحافت سکھانے پر توجہ نہیں دیتے۔ حالاں کہ یہ وہاں پڑھانے والوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے طلبہ کے ساتھ کارکن صحافیوں کے لیے تربیت کا اہتمام کریں، اور انہیں شعبہ کی حساسیت اور ذمہ داری سے آگاہ کریں۔ کیوں کہ ہر یونیورسٹی میں سیکڑوں طلبہ صحافت کا مضمون پڑھتے ہیں۔ سیکڑوں فارغ بھی ہوچکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی اور نہ توجہ دینے میں سنجیدہ ہی ہیں۔
قارئین کرام! کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی معلومات یا ایسی خبریں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو، شیئر یا پوسٹ نہ کیے جائیں، کیوں کہ ایسا کرنے سے ہمارے معاشرے پر برا اثر پڑ سکتا ہے، جس کا خمیازہ پھر نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جن لوگوں کو صحافت کا علم نہ ہو، تو ان کو اس حوالے سے کام نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اگر ڈاکٹر کی جگہ استاد بیٹھتا ہے اور مریض کا علاج کرتا ہے، تو وہ الٹا مریض کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اس طرح کسی ڈرائیور کو جہاز اڑانے کے لیے کہا جائے، تو یہ جہاز میں بیٹھے مسافروں کی زندگی سے کھلواڑ ہی ہوگا۔ لہٰذا شعبے کی حساسیت کو سمجھا جائے، تب کام کیا جائے۔ اس کے ساتھ صحافتی تنظیموں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ اس شعبے کی بہتری کے لیے کام کریں اور اس پر کڑی نظر رکھیں۔ ایسے لوگوں کو بہرصورت منع کیا جائے، جو معاشرے کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں اور غلط اور من گھڑت رپورٹنگ کرکے صحافتی شعبہ کے نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔