ثلاثی، ہائیکو اور ماہیا کی مانند ’’تِروینی‘‘ بھی تین مصرعوں پر مشتمل نظم ہے۔ مشہور فلم ڈائریکٹر اور ادیب گلزارؔ نے اس کے مؤجد ہونے کا دعویٰ کیا ہے: ’’مَیں نے شاعری میں ایک نئی فارم (Form) پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نام تروینی رکھا۔ یہ ہائیکو بھی نہیں، مثلث بھی نہیں، تیسرا مصرع روشن کی طرح کھلتا ہے۔ اس کی روشنی میں پہلے شعر کا تاثر بدل جاتا ہے۔ تیسرا مصرع کومنٹ (Comment) بھی ہوسکتا ہے، اضافہ بھی۔ تروینی میں ایک شوخی اور Surprise کا رنگ ہے۔‘‘ (سلطانہ مہر (مرتبہ) ’’سخنور‘‘ حصۂ دوم۔ ص۔ 383 اور 384)
پاکستان میں شاعر علی شاعرؔ کا ’’تروینیاں‘‘ (کراچی: 2007ء) کے نام سے مجموعۂ کلام طبع ہوا ہے۔ کراچی ہی سے زیب النسا زیبیؔ کی تروینیوں کا مجموعہ ’’تیرا انتظار ہے‘‘ (2008ء) طبع ہوا۔ ان کے بعد لاہور سے ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کا مجموعہ ’’بارش میں دھوپ‘‘ (2010ء) شائع ہوا ہے۔
ان مجموعوں کی بنا پر توقع کی جا سکتی ہے کہ دیگر شعرا بھی تِروینی کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی تِروینی ملاحظہ ہو:
ہائے ری تقدیر
دریا ڈوبی سوہنی
کھیڑے لے گئے ہیر
(’’تنقیدی اصطلاحات‘‘ از ’’ڈاکٹر سلیم اخترؔ‘‘، مطبوعہ ’’نگارشات‘‘ سنہ 2011، صفحہ 86 سے انتخاب)