اسپین مسلم دور میں

"مسلمان 711ء مین اسپین کے ایک چھوٹے سے جزیرہ پر اترے تھے۔ اس جزیرہ کی پہاڑی کا نام طارق بن زیاد کے نام جبل الطارق پڑگیا تھا جسے اب جبرالٹر کہا جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آئبیریا کا پورا خطہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا تھا۔ وہاں حکومت سنبھالنے کے بعد مسلمانوں نے عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ جس رواداری کا ثبوت دیا اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ قرآن نے عیسائیوں اور یہودیوں کو اہل کتاب قرار دیا ہے۔وہ ملت ابراہیمی کا حصہ ہیں۔ اسلام انھیں مسلمانوں کا بھائی سمجھتا ہے سوائے اس کے کہ گم راہ ہوگئے ہیں۔ اس خیال کی عملی شکل ہمیں مسلم اسپین میں ہی نظر آتی ہے۔ عرب کمانڈر عبدالعزیز اور مرسیا کے وسی گوتھ شہزادہ تھیڈور کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کا متن اب تک موجود ہے۔اس میں عیسائیوں کو اپنے کلیسا اور خانقاہیں اور یہویوں کو اپنے سناگاگ برقرار رکھنے کی اجازت تھی۔ یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ وسی گاتھ کے ٹیکسوں کا پیچیدہ نظام بدل دیا گیا تھا اور فوجی خدمات انجام نہ دینے پر ایک ہی سادہ سا ٹیکس لگا دیا گیا تھا۔ یہ ٹیکس بھی استطاعت کے مطابق وصول کیا جاتا تھا۔ عورتیں، بچے، معذور لوگ، بیمار، غلام اور پادری اس ٹیکس سے مستثنیٰ تھے۔ اکثر غلام آزاد کردیے گئے تھے۔ مختلف ذرائع شاہد ہیں کہ اسپین کی مالی حالت بہت اچھی ہوگئی تھی۔ اکثر لوگوں کے حالاتِ زندگی بہت اچھے ہوگئے تھے۔ اسپین پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی۔ 1492ء میں مسلمانوں کی آخری سلطنت غرناطہ ختم ہوئی۔ عیسائیوں نے وہاں حکومت سنبھالتے ہی تمام یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا۔ بارہ تیرہ سال کے اندر تمام مسلمان جلاوطن کردیے گئے۔ مسلمانوں نے جو کثیر نسلی، کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی معاشرہ قائم کیا تھا اس کی جگہ نسلی اور مذہبی تعصب پر مبنی سماج قائم کردیا گیا اور مذہب کے نام پر قتل و غارت شروع ہوگیا‘‘۔
(ضیاء الدین سردار کی کتاب "جنت کے لیے سرگرداں” باب نمبر 14، صفحہ نمبر 296 تا 297 انتخاب)