چینی اور ہندوستانی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کھانے سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے، بلکہ اس کا تعلق روح اور دماغ سے بھی ہے۔ اس لیے کھانا صحیح اور درست طریقے سے کھانا چاہیے۔
کنفیوشس کے زمانے میں یہ کھانے کے آداب میں تھا کہ اتنا گوشت نہیں کھانا چاہیے کہ اس سے سانس میں بو آنے لگے۔ اگر چہ شراب پینے کے بارے میں کوئی حد مقرر نہیں تھی، مگر یہ تھا کہ مدہوش نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی ہدایت تھی کہ شراب دوکان سے نہیں خریدنا چاہیے اور خشک گوشت منڈی سے۔ اسے کھانے میں تردد نہیں کرنا چاہیے کہ جن پر اَدرک چھڑکی ہوئی ہو، مگر یہ کھانے بھی زیادہ نہیں کھانے چاہئیں۔
ہندوستان میں کھانا یا تو مٹی کے برتنوں میں کھایا جاتا تھا یا پتوں پر، کھانے کے بعد برتن توڑ دیے جاتے تھے اور پتوں کو بچے ہوئے کھانے کے ساتھ پھینک دیا جاتا تھا۔ ہندوؤں میں یہ دستور تھا کہ کھانا کھانے سے پہلے یہ ہاتھ، منھ اور پاؤں دھوتے تھے۔ مشرق کی طرف منھ کرکے بیٹھتے تھے اور خاموشی سے کھانا کھاتے تھے۔ ان کے ہاں کھانا دو وقت کھایا جاتا تھا۔ راجہ کا کھانا کئی قسم کا ہوا کرتا تھا۔ اس سے عام طور سے پھل پہلے آتے تھے۔ اس کے بعد پکا ہوا کھانا، اور پھر میٹھا، جب بھی دوسری ڈش کھائی جاتی تھی، تو ہر بار ہاتھ دھلوائے جاتے تھے۔ (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ’’تاریخِ کھانا اور کھانے کے آداب‘‘ مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز لاہور‘‘ پہلی جلد 2013ء، صفحہ نمبر 59 سے انتخاب)