حمزہ شنواری دراز قد کے مالک تھے۔ ان کا قد لگ بھگ چھے فٹ تھا۔ اس کے ساتھ ان کی چمپئی رنگت غضب ڈھاتی۔ آخری سانس تک صورت نتھری دکھائی دی۔ ہاتھ پاؤں بھی مضبوط اور لمبے تھے، لیکن بھدے بونڈے نہیں لگتے تھے۔ آنکھیں نسبتاً چھوٹی تھیں، جس سے ان کے زیرک ہونے کے نشان واضح تھے۔ گول چہرے پر خشخاشی داڑھی خوب جچتی تھی۔ بعض اوقات بیماری کی حالت میں داڑھی لمبی بھی ہوجاتی، لیکن جب حجام کے سامنے بیٹھتے، تو اس کی مرضی کے آگے سرِ تسلیم خم کرلیتے۔ پھر حجام کی مرضی ہوتی کہ وہ کتنی رکھ چھوڑتا، حمزہ بابا کی طرف سے کسی قسم کا کوئی احتجاج نہ ہوتا۔ البتہ پیرانہ سالی میں مونچھیں چھوٹی رکھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ستواں ناک، دانت وقت کے ساتھ جھڑتے گئے، درمیانی چال چلتے، کان بھی قد و قامت اور چہرے کے مطابق تھے۔ آخری عمر میں تھوڑا اونچا سنتے تھے۔ اکثر و بیشتر کان میں سننے کا آلہ لگاتے۔ اس حوالہ سے کمال کی بات یہ تھی کہ آلہ کا استعمال تبھی کرتے جب کوئی ناآشنا مخاطب ہوتا، یا پھر ملنے والے تعداد میں زیادہ ہوتے۔ عام طور پر جن سے راہ و رسم ہوتی، ان کے ہونٹوں کی حرکت پر نظر رکھتے اور قیاس کے گھوڑے دوڑاتے کہ مخاطب کیا کہنا چاہتا ہے۔ بیشتر اندازہ ٹھیک لگالیتے، لیکن جب غلطی ہوجاتی، تو پشتو مقولے ’’بہرا دو بار ہنستا ہے‘‘ کے مصداق گلو خلاصی کی کوشش کرتے۔ آدمی کی ہنسی اس وقت چھوٹتی، جب کوئی ان سے پوچھتا کہ بابا کیا آپ بہرے ہوچکے ہیں، تو جواباً کہتے: ’’بہرا نہیں ہوں، البتہ تھوڑا اونچاسننے کا عادی ہوں۔‘‘
حمزہ بابا کی آواز نیچی تھی۔ یوں محسوس ہوتا جیسے ان کا گلا بیٹھ گیا ہو، لیکن وہ اتنی پیاری اور علمی باتیں کرتے کہ آواز کی کمزوری کی طرف کسی کی نظر نہ جاتی۔ مذکورہ آواز میں اپنے اشعار اور نثر بڑے پیارے انداز سے سامعین کے گوش گزار کیا کرتے۔ اس کی ہوبہو آواز پشتو کے مشہور شاعر ’’اکمل لیونے‘‘ سے کوئی بہتر طور پر نہیں نکال سکتا۔ حمزہ بابا نے اک بار کہا بھی تھا کہ اگر پردے کے پیچھے اکمل کو بٹھایا جائے، اور وہ میرے اشعار باآوازِ بلند پیش کرنا شروع کرے، تو کسی کو گمان تک نہ گزرے کہ حمزہ کی نقل اتاری جا رہی ہے۔
گو کہ حمزہ بابا کی آواز نیچی تھی مگر بوقتِ ضرورت وہ اسے بدلنے اور بھاری کرنے کی قدرت بھی رکھتے تھے۔ جیسا کہ جب وہ بمبئی اور دہلی میں قیام پذیر تھے،تو ان دنوں گیتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈرامے اور خاکے بھی لکھے تھے، یوں صداکار کے طور پر ان میں مختلف کرداروں کو بھی احسن طریقے سے نبھایا تھا۔ صداکاری میں بوقتِ ضرورت کئی بار انہیں اپنی آواز بدلنا بھی پڑی تھی۔ اس طرح حمزہ بابا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پشتو کے اولین صداکاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ دیگر میں سبز علی خان، اول میر اور میر احمد قابلِ ذکر ہیں۔ مَیں نے بذاتِ خود انہیں کبھی ترنم کے ساتھ کلام پیش کرتے ہوئے دیکھا نہ سنا۔ لیکن ایک بار انہیں یہ کہتے ہوئے ضرور سنا تھا کہ اپنے کچھ گیتوں کے لیے دھنیں خود ترتیب دی تھیں۔ بقول ان کے ’’مَیں رباب بجانے کا ماہر تھا، مگر گلا اچھا نہیں پایا تھا۔ البتہ یہ تھا کہ گلوکاروں کو اس حوالہ سے سمجھا سکتا تھا۔‘‘ حمزہ بابا کے بڑے بھائی بھی موسیقی کے اسرار و رموز سے واقف تھے۔ ان کے ایک بھائی ملک باور خان خود رباب بجانے کے ماہر تھے۔ وہ پیشہ کے لحاظ سے ٹھیکیدار تھے اور فارغ اوقات میں پیر عبد الستار شاہ المعروف باچا جان کے آستانے (ڈبگری بازار) پر حاضری دیا کرتے تھے۔ ان دنوں باچا جان صاحب کا شہرہ تھا۔ اسی تعلق کی بنا پر حمزہ بابا بھی ان کے مریدِ خاص بن گئے۔
آپ ہر قسم کے کپڑے پہنا کرتے تھے۔ اس حوالہ سے آپ نے خود کو کبھی کسی معیار کا پابند نہیں بنایا۔ موٹا جوٹا جیسے مل جاتا پہن لیتے۔ البتہ سفید لباس ان پر بہت سجتا۔ ہمیشہ پشتونوں کی روایات کے مطابق سر پر پگڑی باندھتے۔ گھر پر ہوتے، تو سفید ٹوپی یا اونی ٹوپی بھی پہن لیتے۔ طبیعت میں چہل آتی، تو ذکر شدہ تمام قیود سے خود کو آزاد کرلیتے اور ننگے سر گھومنے کو ترجیح دیتے۔
خوراک کے حوالہ سے حمزہ بابا کا معیار اعلیٰ تھا۔ ہمیشہ کچا گوشت کھاتے۔ چاہے موسم سرد ہو یا گرم مگر دہی ضرور کھاتے۔ اس حوالہ سے کہتے کہ دہی ہاضمہ کے لیے اکسیر ہے۔ چائے دن میں دو بار یعنی صبح دس بجے اور سہ پہر کو مقررہ وقت پر لیتے۔ ظہرانہ اور عشائیہ کے بعد قہوہ لیا کرتے۔ موسم کے مطابق پھل کھانے کو ترجیح دیتے۔ امرود کی تعریف کرتے سنے گئے۔ کہتے، یہ بھی ہاضمہ کے لیے بہتر ہے۔ ساتھ یہ مقولہ بھی کہتے ’’لکڑ ہضم، پتھر ہضم۔‘‘ نسوار اور سگریٹ دونوں کا استعمال کرتے۔ دن بھر میں صبح دس بجے کی چائے کے بعد فقط ایک سگریٹ پیا کرتے، مگر کیپسٹن (Capstan) کی ڈبیا ہر وقت ساتھ رکھتے۔البتہ نسوار کھانے کی کوئی خاص ٹائمنگ نہیں تھی۔ اس حوالہ سے ان کا انداز سب سے منفرد تھا۔ نسوار، زبان کے نیچے رکھتے اور اس کے بعد چپ کا روزہ رکھ لیتے۔ حج کی زیارت کے موقع پر گنتی کی چند سگریٹس ساتھ لیتے گئے۔ دو تین عدد واپسی کے وقت اس لیے ان کے ساتھ رہ گئی تھیں کہ حج کے مراسم ادا کرنے کے دوران میں مقررہ وقت پر پی نہ پائے تھے۔
حمزہ بابا پیدل چلنے کے شوقین تھے، جب گاؤں میں ہوتے، تو علی الصباح لواڑگی بازار سے گھر تک پیدل آیا کرتے۔ یہ اچھی خاصی مسافت ہے۔ شہر میں بھی سہ پہر کے وقت چہل قدمی کیا کرتے۔ سردیوں میں پشاور شہر میں ڈیرا ڈال دیتے اور گرمیوں میں واپس اپنے گاؤں لواڑگی کا رُخ اس لیے کرتے کہ شہر کی نسبت وہاں موسم معتدل ہوتا ۔ لواڑگی میں موسمِ گرما میں کئی مشاعرے بھی کیے جن میں پورے پختونخوا سے چھوٹے بڑے شعرا اپنی شرکت یقینی بناتے۔ حمزہ بابا کی شخصیت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ سنجیدہ مشاعرہ کے بعد ایک مزاحیہ طرحی مشاعرہ کا ڈول ڈالتے۔ ایک بار مصرعۂ طرح رکھا گیا: ’’ہاتھی د ماشی پہ وزر سور دے۔‘‘ دوسری بار کچھ یوں رکھا گیا: ’’نن می لیدلی وہ ہوخیارہ پوزہ۔‘‘ مؤخر الذکر طرح پر ایک شاعر کا شعر ملاحظہ ہو:
بس ضرورت د دؤو خپو دے ورتہ
گنی پرتوگ دے بس تیارہ پوزہ
حمزہ بابا کی طبیعت میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ کبھی غرور کیا نہ کسی کو نیچا دکھایا۔ ہر کسی کا اچھے الفاظ میں ذکر کرتے۔ باوجود اس کے کہ قبائلی علاقہ میں جنم لیا مگر اسلحہ اور لڑائی جھگڑے سے نفرت کرتے۔ خود بھی بولتے اور دوسروں کو سننے کا ظرف بھی رکھتے۔ بحث و مباحثہ میں دلائلِ عقلی و نقلی کا سہارا لیا کرتے۔ خود بھی جھوٹ نہیں بولتے تھے اور دوسروں کو بولتے پکڑنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا تھا۔ برسبیلِ تذکرہ، ایک دفعہ پشتو کے ایک لکھاری ان سے مخاطب تھے اور آپ ہمہ تن گوش تھے۔ لکھاری کی بات ختم ہوئی، تو آپ نے انہیں کہا کہ محترم اگر آپ ہمارے درمیان ہونے والے اس مباحثہ کو تحریری شکل دے دیں، تو اس سے ایک اچھا خاصا ناول بن سکتا ہے۔ وہ محترم سمجھا، یا نہیں، مگر اُسے اپنی بات مبالغہ آمیز ضرور محسوس ہوئی۔
حمزہ بابا نازک مزاج تھے، جلد غصہ ہوا کرتے تھے۔پھر کچھ دنوں بعد ڈھیر ساری وضاحتوں کے ساتھ راضی بھی ہوجایا کرتے۔ اس وجہ سے محفل میں لوگ ان کا خیال بطورِ خاص رکھا کرتے۔ بحث و مباحثہ کے دوران میں چاہے کتنا ہی آپ کا اختلاف ہوتا، آپ کبیدۂ خاطر نہ ہوتے۔ اپنی نازک مزاجی اور زود رنجی کے متعلق اپنے ہی ایک شعر کا حوالہ دیا کرتے۔ ساتھ انہیں اپنی کمزوری نہیں بلکہ کمال گردانتے۔ شعر ملاحظہ ہو:
زود رنجی دَ آئینہ زڑونو صفت وی
صافی ڈیرہ قبلوؤنہ د غبار کا
حمزہ بابا کسی حد تک وہم کا شکار بھی رہا کرتے ۔ خود بھی کبھی کبھار کہتے کہ ہر کوئی وہم کا شکار ہوتا ہے اور صوفی تو بطورِ خاص اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اندھیرے میں سخت تنگ ہوتے۔ ایک دن ہم کچھ ساتھی ان کے ساتھ بیٹھے تھے کہ بجلی چلی گئی، حمزہ بابا بہ آوازِ بلند پکارنے لگے: ’’سلیم، جلدی چراغ لے آؤ!‘‘ میں ان کی بے چینی بھانپ گیا، اس لیے پوچھ بیٹھا کہ بابا، غالباً آپ کو اندھیرا اچھا نہیں لگتا! جواباً کہنے لگے: ’’اندھیروں سے مجھے سخت نفرت ہے۔‘‘ ساتھ ہی اپنا ایک شعر کہا:
دا دَ تیرو نہ چی نفرت کوومہ
دا می غرض دے چی رنڑا غواڑم
حمزہ بابا جڑی بوٹیوں کی طبعی خاصیت سے بھی آشنا تھے۔ اک دفعہ انہیں کہتے سنا کہ ہزارہ کے پہاڑوں میں ایک پودا پایا جاتا ہے جو ’’زوان دانہ‘‘ کہلایا جاتا ہے۔ اگر اس میں پیدا ہونے والے دانے کھائے جائیں، تو پیرانہ سال واپس جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ سکتے ہیں۔ حمزہ بابا یہ بھی کہتے سنے گئے کہ انہیں ’’زوان دانہ‘‘ کی تمام نشانیاں معلوم تھیں، اس کی تلاش میں مذکورہ پہاڑوں میں گھومے بھی تھے، لیکن بے سود۔
حمزہ بابا مطالعہ کے بہت شوقین تھے۔ ہر وقت ان کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب رہتی۔ بیماری کی حالت میں بھی چار تا پانچ گھنٹے مطالعہ کرتے۔ روزنامہ جنگ کے باقاعدہ قاری تھے۔ ان کے اخبارات پڑھنے کا انداز منفرد تھا۔ پہلے صفحۂ اول پڑھتے، پھر صفحۂ دوم، سوم، چہارم وعلی ہذاالقیاس۔ آخر میں بقیہ خبروں کے صفحات پر نظر دوڑاتے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ اس طرح آپ کو خبریں کیسے یاد پڑتی ہیں؟ کیوں کہ ہم تو خبر کے ساتھ اسی وقت بقیہ پڑھا کرتے ہیں، ورنہ پھر خبر یاد نہیں رہتی۔ انہوں نے جواباً کہا کہ ’’اپنے انداز سے چیزیں یاد رہتی ہیں۔‘‘ روزنامہ جنگ کے علاوہ ڈائجسٹوں میں سے سسپنس اور جاسوسی بھی پڑھا کرتے تھے۔ ان کی بیشتر کہانیاں انہیں یاد بھی رہتی تھیں۔ مثالی حافظہ رکھتے تھے۔ کہتے سنے گئے تھے کہ ہر بڑے لکھاری کے لیے مطالعہ اور حافظہ دونوں ضروری ہیں۔
حمزہ با با نے اپنی ادبی زندگی میں نظم و نثر کی کئی کتب لکھی ہیں۔ اس طرح چند اہم کتب کا ترجمہ بھی کرچکے ہیں، جن میں علامہ محمد اقبال کے فارسی اور اردو مجموعوں کا پشتو میں منظوم ترجمہ بھی شامل ہے۔ رحمان باباؒ کے پورے دیوان کا بھی اردو میں منظوم ترجمہ کرچکے ہیں۔ تصوف، فلسفہ، مذہب، انسانی نفسیات اور ادبی موضوعات پر بھی بار ہا قلم اٹھا چکے ہیں۔ لیکن آپ نے شاعر اور غزل گو کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ یہاں تک کہ آپ کو جیتے جی ’’بابائے غزل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ آپ ابھی بقیدِ حیات تھے کہ آپ کے کلام کا مجموعہ ’’کلیاتِ حمزہ شنواری‘‘ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا۔ اس حوالہ سے ناقدین کا بالعموم اور قلندر مومند کا بالخصوص یہ خیال تھا کہ حمزہ بابا غزل کے مقابلہ میں نظم اچھی لکھتے تھے۔ حالاں کہ ان کی نثر کے حوالہ سے بھی دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری سے زیادہ نثر کی صلاحیت اچھی تھی۔ اس لیے میں وثوق سے کہتا ہوں کہ حمزہ شنواری صرفغزل کے نہیں بلکہ پوری پشتو کے بابا تھے۔
حمزہ بابا پر جیتے جی کئی کتب تحریر کی گئیں۔ پروفیسر ڈاکٹر قابل خان آفریدی نے ان پر پی ایچ ڈی مقالہ لکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان پر ایم فل کے کئی مقالے پشتو، اردو اور انگریزی زبان میں لکھے جا چکے ہیں۔
یہ بھی حمزہ بابا کی انفرادی خصوصیت ہے کہ آپ جتنے خطوط کسی اور پشتون شاعر یا ادیب نے نہیں لکھے۔ مذکورہ خطوط پشتو زبان میں ’’مکتوباتِ حمزہ‘‘ ملک عبدالرحمان کے نام، ’’گوتی قلم تہ پہ ژڑا شوی‘‘طاہر آفریدی کے نام، ’’ژوندی خطونہ‘‘ ڈاکٹر حسین شاہ کے نام، ’’اور ’’دَ حمزہ خطونہ، دَہما پہ نوم‘‘ ڈاکٹر ہمایون ہماؔ کے نام کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ ان خطوط میں علمی مباحث پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ خطوط کی ایک اور کتاب ’’جعفر خان اچکزئی‘‘ کے ساتھ بھی چھپ چکی ہے، جس کا نام ہے ’’انسان او خدائے۔‘‘ خطوط کی ایک غیر مطبوعہ کتاب بھی ہے، جس میں وہ خطوط ہیں جو انہوں نے ملاکنڈ ایجنسی کے ’’سید فضل مولا خیال‘‘ کے نام لکھے تھے۔ اس کا نام ’’زما پہ نوم چی قاصد راوڑی خطونہ‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً کچھ خطوط رئیس امروہوی اور انیس شاہ جیلانی کے نام اردو زبان میں بھی لکھے ہیں، وہ بھی غیر مطبوعہ ہیں۔ صرف انیس شاہ جیلانی کے نام آپ نے مختلف اوقات میں 337 خطوط لکھے ہیں۔ ان خطوط میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے باچا خان اور ولی خان کی جا بجا وکالت کی ہے۔ جیسا کہ ایک جگہ صفحہ نمبر 113، مکتوب نمبر 115 میں لکھتے ہیں: ’’آپ کو یاد ہوگاجو میر صاحب (میر زاہد حسین) صادق آباد سٹیشن پر ملے تھے اور جس نے عبدالغفار خان کو غدار کہا تھا۔ اگر وہ ملیں، تو میرا سلام عرض کرنا اور بعد یہ کہ میر صاحب غداری کی روایت تو برصغیر میں میر صاحبان ہی سے چلی ہے۔ میر جعفر اور میر صادق ننگِ دین و ننگِ وطن کے طور پر کافی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔‘‘ (2 مارچ 1972ء)
اس طرح صفحہ 123 مکتوب نمبر 119 مورخہ 27 ستمبر 1972ء میں لکھتے ہیں: ’’عبدالغفار خان اور عبدالولی خان کے خلاف انگریزوں نے جو پروپیگنڈا کرایا تھا، وہ اتنا شدید اور پکا تھا جس کا اثر ایک صدی تک زائل نہ ہوگا۔ کیوں کہ انگریز اس فن کے استاد تھے۔‘‘
مذکورہ خطوط میں ملک کے حالات، تاریخ، سیاست اور پشتونوں کے کردار کے حوالہ سے بہت کچھ موجود ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے خطوط پر بھی پی ایچ ڈی مقالہ لکھا جاچکا ہے۔
حمزہ بابا ادب کی اکثر اصناف پر حاوی تھے۔ یہاں تک کہ ’’ٹپہ‘‘ بھی لکھ چکے ہیں۔ ایک دن دورانِ گفتگو اس حوالہ سے بات ہوئی۔ میں نے پوچھاکہ کیا ٹپہ بھی کسی شاعر کا ہوسکتا ہے یا نہیں؟ انہوں نے جواباً کہا، ٹپہ عوامی صنف ہے اور اگر کوئی شاعر اسے تخلیق بھی کر لیتا ہے، تو عوام میں پہلے سے اتنی تعداد میں ٹپے موجود ہیں کہ نیا تخلیق شدہ ٹپہ بھی عام ہی ہوگا۔ مَیں نے بھی کئی ٹپے لکھے ہیں جن میں ایک بے حد مقبول ہوا ہے۔ اب یہ ایک طرح سے اولسی ٹپہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
پہ یارانہ کی زڑہ سندان کہ
پہ کی پیخیگی د پلکونو گزارونہ
حمزہ بابا بسیار نویس تھے۔ انہوں نے ہر موضوع پر نہ صرف قلم اٹھایا ہے بلکہ پورا پورا انصاف بھی کیا ہے۔ حمد، نعت اور منقبت سے لے کر غزل، نظم، قطعہ، رباعی، مقالہ، مضمون، ’’تکل‘‘ (انشائیہ)، افسانہ، دیباچہ، ڈراما، فلمی کہانی، اور عوامی گیت تک سب کچھ نہ صرف مقدار کو ملحوظِ خاطر رکھ کر لکھا ہے بلکہ ذکر شدہ ہر صنف کے ساتھ انصاف بھی کیا ہے۔ حکومت کی طرف سے آپ کو صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی اور دیگر کئی انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ (گل محمد بیتابؔ کی پشتو خاکوں کی کتاب "روخانہ سہری” مطبوعہ "عامر پرنٹ اینڈ پبلشرز پشاور” سے "زہ شینواری او حمزہ شنیواری” کا ترجمہ)
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔