کالام کے معاملات بالکل مختلف ہیں۔ اوشو، اُتروڑ، کالام اور اَریانئی یا گاؤری علاقہ کو سرکاری کاغذات میں کالام کا مشترک نام دیا گیا ہے۔ یہ علاقہ دریائے سوات کے بالائی تسلسل میں واقع ہے اور اس پر مہتر چترال، نوابِ دیر اور ریاستِ سوات کے باچا کا دعویٰ تھا۔ یہاں کے باشندے آزاد تھے۔ کسی کو عُشر نہیں دیتے تھے اور آزاد رہنا چاہتے تھے لیکن اُن کے باہمی جھگڑوں کی وجہ سے بعض اوقات کمزور فریق مندرجہ بالا تینوں دعوے داروں میں سے کسی ایک سے مدد کا طالب ہوتا جس سے اُس کو سازش کرکے اپنا اثر ور سوخ بڑھانے کا موقع مل جاتا۔ ارادہ یہ ہوتا کہ کسی طرح اس پورے علاقہ کو زیرنگین کرے۔ اصل دلچسپی سب کو یہاں کے ابھی تک محفوظ گھنے جنگلات سے تھی۔
چترال اس علاقہ پر اپنی ملکیت کا دعویٰ اس بنیاد پر کرتا تھاکہ چترالی حکمران یہاں پناہ لینے آتے تھے اوریہاں کے تقریباً چار سو گھر انے چترالی زبان بولتے تھے۔ دیگر یہ کہ چترالی ان سے سالانہ کچھ خچر بہ طور خراج وصول کرتے تھے۔ نوابِ دیر کے دعویٰ کی بنیاد دیر کوہستان اور یہاں کے لوگوں کی زبان کا ایک ہونا تھا جب کہ سوات کا دعویٰ صرف جغرافیائی بنیادوں پر تھا۔
1923ء میں کالام کے مسئلہ پر صورتِ حال شدید ابتر ہوگئی۔ باچا آف سوات نے پولی ٹیکل ایجنٹ کو لکھا کہ اگر مہتر چترال نے واقعی اپنے آدمی کالام بھیجے ہوں، تو ’’وہ اُس پر حملہ کردے گا۔ اس لیے کہ کالام سوات کا اٹوٹ انگ ہے۔‘‘ اس پر برطانوی حکومت نے مداخلت کی اور سوات کے حکمران سے ضمانت لی کہ وہ مہتر چترال اور نوابِ دیر کی اُس علاقہ میں مداخلت کا راستہ روکنے کے علاوہ اور کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ مہتر چترال سے کہا گیا کہ اُس کا اپنی سرحد میں اضافہ کا کوئی بھی اقدام حکومتِ برطانیہ سے اُس کے معاہدہ کی خلاف ورزی گردانا جائے گا۔ اسی طرح نوابِ دیر کو متنبہ کیا گیا کہ وہ سوات کے باچا کو اپنے عہد سے پھرنے کا کوئی موقع نہ دے۔
لیکن مہتر چترال اور سوات کے باچا کی طرف سے علاقہ میں مداخلت کا سلسلہ جاری رہا۔ 1925ء میں باچا نے اپنے سپہ سالار کو کالام کی سرحد پر واقع مقام پشمال بھیجا۔ یہ دراصل گاؤریوں کو خرید نے یا پھر اُن کو اطاعت پر مجبور کرنے کی ایک کوشش تھی۔ پولی ٹیکل ایجنٹ نے سواتی حکمران کو یاد دہانی کے لیے تحریر بھیجی کہ وہ اپنے تحریری عہد پر قائم رہے اور سخت الفاظ میں اُسے کہا کہ وہ اپنے سپہ سالار کو فوراً اس علاقہ سے واپس بلائے اور وہاں کے باشندوں کے اندرونی معاملات میں مزید کسی مداخلت سے باز رہے۔
انگریز حکومت کے اس علاقہ کے بارے میں اپنے ارادے تھے۔ 1929ء میں اُس نے وہاں لیوی دستوں کی معیت میں ایک تحصیل دار بھیجا، تاکہ علاقہ کو اپنے قبضہ میں لے کر قیمتی جنگلات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ پھر پولی ٹیکل ایجنٹ نے بذاتِ خود جاکر 30 مئی سے 12 جون تک اس کارروائی کا جائزہ لیا، لیکن 1930ء میں برطانوی حکومت کے لیے صورتِ حال اتنی مشکل ہوگئی کہ اس مہم کو ترک کردیا گیا۔ باچا صاحب بہ ظاہر تو اس ضمن میں برطانوی حکومت کی مدد کر رہا تھا،لیکن اندر ہی اندر وہ لوگوں میں پھیلی بے چینی کو ہوا دیتا رہا۔ اس وجہ سے اس علاقہ پر انگریزوں کا قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔
1937ء میں کالام کے جرگوں نے سوات کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر کی، لیکن انگریز حکومت نے اس پر عمل نہ ہونے دیا۔ 1938-39ء کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق: ’’کالام کا مسئلہ تاحال لاینحل ہے۔ جنگلات کی دولت سے مالا مال یہ علاقہ دریائے سوات کے بالائی تسلسل میں واقع ہے۔ یہ ایک آزاد قبائلی علاقہ ہے جس کی سرحدیں تینوں ریاستوں سوات، دیر اور چترال سے ملتی ہیں۔ والی کی طرف سے قریبی علاقوں پر قبضہ سے اُس کی پوزیشن یہاں دوسروں کے مقابلہ میں بہتر ہوئی ہے۔ فی الحال تو تینوں دعوے داروں کے حامیوں کے درمیان باہمی جھگڑوں تک بات محدود ہے جو اپنے اپنے دعوے دار کے استحقاق کو صحیح ثابت کرنے میں مصروف ہیں جب کہ برطانوی حکومت ان میں سے کسی کو بھی الحاق کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ۔‘‘
تاہم 1947ء میں کچھ برطانوی حکام نے ولی عہد میاں گل جہان ز یب کو جو کہ سوات کی فوج کے سپہ سالار بھی تھے، اشارتاً بتایا کہ چوں کہ 15-14 اگست کی آدھی رات کے وقت برطانوی راج کا اختتام ہوجائے گا۔ اس دوران میں وہ کالام پر قبضہ کرلے۔ ایسا کرلیا گیا اور اس طرح ریاست کی سرحدیں مزید پھیل گئیں جس پر نوابِ دیر نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ اسی طرح مہتر چترال کو بھی تاؤ چڑھا لیکن اُس نے سواتی حکمران کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت 50 ہزار روپے لے کر اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔ حکومت پاکستان نے نہ تو اس معاہدہ کو تسلیم کیا اور نہ ہی کالام کے قبضہ کو۔ یہ مسئلہ 1954ء تک جوں کاتوں معلق رہا، جب والی نے سوات کوہستان (کالام، اوشو، اور اُتروڑ) کے انتظام کے متعلق معاہدہ پر دستخط کیے۔ والی نے بے حد کوشش کی کہ اُس کے کالام پر قبضہ کوپاکستان تسلیم کرلے، لیکن اُسے کامیابی نہیں ہوئی۔ بہرحال اس علاقہ کو والی کے زیرِ انتظام رہنے دیا گیا۔ یہاں اُس کو عملاًاتنے ہی اختیارات حاصل تھے جتنے سوات میں تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اُسے یہاں ’’منتظمِ کالام‘‘ کہا جاتا تھا اور اُسے اس کام کے لئے سالانہ پاکستان کی طرف سے 24 ہزار روپے ملتے تھے۔
میاں گل جہان زیب کے الفاظ میں: ’’1947ء تک ریاست سوات نے ممکنہ حد تک اپنی سرحدیں پھیلادی تھیں۔ وادئی سوات میں نیچے ملاکنڈ ایجنسی تک، مغرب میں دیر کی حدود تک، جنوب میں ضلع مردان کے زیر انتظام علاقہ تک، مشرق میں اباسین کے کنارے تک، شمال میں ریاست چترال اور گلگت ایجنسی تک۔ یہ وہ ساری حدیں تھیں جو ہمارے لیے برطانوی حکومت نے مقرر کی تھیں۔ ان میں سے کچھ میں ہماری سرحدیں سیدھی ان سے لگتی تھیں، کچھ میں ان ریاستوں سے ملتی تھیں جنہیں انہوں نے تسلیم کیا ہوا تھا،کچھ میں ان علاقوں سے جا ملتی تھیں جنہیں انہوں نے اپنی کسی حکمت سے آزاد علاقہ کی حیثیت سے چھوڑ رکھا تھا۔‘‘ (کتاب "ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 111 تا 113)