کچھ ڈاکٹر انور علی کے بارے میں

اردو ادب سے شغف رکھنے والوں کی یہ عادت ہے کہ چاہے کلاس ایجوکیشن کی ہو یا کسی اور مضمون کی، کوئی پھڑکتا ہوا شعر منھ سے ضرور پھسل جاتا ہے۔ یادش بخیر! کوئی چند برس پہلے کی بات ہے اوپن یونیورسٹی کے اِک ورکشاپ میں مجھ سے بھی یہ غلطی ہوگئی۔ ایسے میں اُردو کے پاریکھ ایک طالب علم نے فوراً تاڑ لیا کہ بندہ اپنی ہی ڈگرکا ہے۔ لہٰذا چھٹی کے بعد گھل مل گیا اور بعد میں دوست بھی بن گیا۔ اُس نے کہا کہ ’’آپ پروفیسر انور علی کو جانتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں!‘‘ اُس نے نمبر دیتے ہوئے کہا: ’’سر، اس بندے سے ضرور ملیں۔ کیا کمال کے آدمی ہیں!‘‘ میں نے نمبرلے لیا۔ رابطہ بھی کیا لیکن وہ اُن دنوں پی ایچ ڈی میں مصروف تھے۔ اس لیے کوئی خاص لفٹ نہیں دی۔ لہٰذا میں نے بھی نمبر ڈیلیٹ کر دیا۔ بقولِ شاعر
آپ نے درد سن لیا ہوتا
درد کی کچھ دوانہیں، نہ سہی
یا یہ بھی کہ
اُس کی منطق درست ہے لیکن
ہم سے اُلٹے سفر نہیں ہوتے
وقت گزرتا گیا۔ ہم بھی اپنی کتابی دنیا میں چلے گئے۔ ایک دن محبی پروفیسر عطاء الرحمن عطاؔ کی کال آئی، کہنے لگے: ’’ہمارے ایک دوست پروفیسر انور علی پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ آپ نے اُن کے مقالے کی پروف ریڈنگ کرنی ہے۔‘‘ میں نے ماضی کوللکارا ضرور لیکن عطاؔ سے کیا کہہ سکتا تھا، حامی بھرلی۔ اگلے سمے پروفیسر انور علی صاحب کی کھنکتی آواز میرے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ میں نے دل میں کہا، ظالم! تیرے لیے تو میں مررہا تھا۔ ملنے کا وقت طے پایا۔ اگلے دن مینگورہ کے نشاط چوک میں ہماری ملاقات ہوئی۔ کیا دلکش و دلرباشخصیت تھی۔ لمبی تڑنگی جوانی، پُرتاثیر نین نقش، گھنے سیاہ بال، بڑی بڑی نشیلی آنکھیں، کشادہ پیشانی، متناسب ناک، نازک لبِ لالیں، گھنی مونچھیں، مردانہ آواز، تکلم میں ٹھہر ٹھہر کر پُرتاثیر گفتگو کرنا، گو یا ہر حوالے سے اِک پُرکشش شخصیت تھے۔ بقولِ فرازؔ
اُس ایک شخص کو دیکھو تو آنکھ بھرتی نہیں
اُس ایک شخص کو ہر بار چل کے دیکھتے ہیں
یا یہ بھی کہ
وہ طرزِ گفتگو میں بھی مثالی
وہ خاموشی میں بھی جچتا بہت ہے
قلم ہاتھ میں رکھنے والوں کے لیے وہ سخت آزمائش کا وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے کسی ایسے پیارے پہ قلم اُٹھاتے ہیں جس کی محبت دل میں بسی ہو۔ اب شخصیت پہ لکھتے وقت ہر دو پہلوؤں پہ لکھنا ہوتا ہے۔ جب کسی کی محبت دل میں بسی ہو، تو قلم منفی کے پہلو نہیں لاسکتا۔ آج ہم اسی مخمصے اور کشاکش میں پھنسے ہیں کہ پروفیسر انور علی میں قابلِ گرفت پہلو کہاں سے تلاشیں؟ اب ہم یہ کہاں لکھ سکتے ہیں کہ وہ رات گئے تک جاگتے رہتے ہیں اور صبح دیر سے بیدار ہوتے ہیں۔ فون بھی مرضی ہی سے اٹینڈ کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ اُنہیں کبھی کبھار وقتی غصہ بھی چڑھتا ہے۔ لیکن محفلِ یاراں میں اُنہیں خوب چہکتے بھی دیکھا ہے۔ یہ میری بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ انہیں بہت کم ملا ہوں۔ لیکن جتنا بھی ملا ہوں، اُنہیں محبتوں سے لبالب بھرا پایا ہے۔ اُن میں دنیا داروں کی طرح دو رنگی نہیں۔ اسی سادگی کی بنا پر ’’یار لوگ‘‘ اُن کے ساتھ کبھی کبھار دو دو ہاتھ بھی کر جاتے ہیں۔ لیکن وہ دل کے ایسے حاتم طائی ہیں کہ جھٹ سے معاف بھی کر دیتے ہیں۔ وہ دل میں کھوٹ اور میل رکھنے کی بجائے اُسے ململ کی طرح صاف ہی رکھتے ہیں۔
ادب کی بات ہے ورنہ منیرؔ سوچو تو
جو شخص سنتا ہے وہ بول بھی تو سکتا ہے
اب آتے ہیں اُس کی پیشہ ورانہ زندگی کی طرف، موصوف جہانزیب کالج میں اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پی ایچ ڈی جیسا سنگِ میل بھی عبور کیا ہے۔ پروفیسر صاحبان تو ہر صنفِ ادب میں طاق ہوتے ہیں لیکن آپ کا ذہنی بہاؤ اور لگاؤ ’’افسانہ نگاری‘‘ کی طرف زیادہ مائل ہے۔ فنِ افسانہ نگاری پہ آپ کا وسیع اور دقیع مطالعہ آپ کے تحقیقی مقالے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ’’اردو افسانے میں پشتون تہذیب و ثقافت کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے اپنا پُرمغز مقالہ تحریر کیا ہے۔ جس پہ آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ پیش گفتار کے بعد 644 صفحات کے اس ضخیم مقالے کو آپ نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ بابِ اول میں آپ نے پشتونوں کی تہذیبی تاریخ اور ان کی ثقافت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ جس میں پشتونوں کی تہذیب و تمدن کے بنیادی مباحث پر بڑی ژرف نگاہی سے حاشیہ کھینچا گیا ہے۔ بابِ دوم میں ابتدا سے لے کر 1947ء تک کے اردو افسانے میں پختون تہذیب و ثقافت کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ بابِ سوم میں بھی 1948ء سے 1970ء تک کے افسانوی دور سے پختون کلچر کی جھلکیوں کو کشید کر کے سامنے لایا گیا ہے۔ بابِ چہارم میں 1971ء سے 1990ء تک نتھار کا یہی عمل جاری رکھا گیا ہے، جب کہ آخری باب میں 1991ء تا 2011ء کے جدید افسانوی دور سے پشتونوں کے متعلقات کو چن چن کراس مقالے کی زینت بنایا گیا ہے۔ تتمہ میں موضوع کا محاکمہ اور کتابیات کی اِک لمبی فہرست بھی موجود ہے۔
مقالے کی زبان سادہ اور رواں ہے۔ کہیں کہیں بعض فارسی تراکیب، مرکبات اور محاورات سے معلوم پڑتا ہے کہ محقق کو اس زبان پر بھی دسترس حاصل ہے۔ سچ پوچھیے تو بعض الفاظ کی پہلی ہی دفعہ پہچان ہوئی۔ مثلاً داش (تندور) اینڈوا (منجیلہ) گاہ (غوبل) بونگی (بوساڑہ) سپند (سپیلنے) اور پشواڑ یعنی (ناچ والے کپڑے) وغیرہ۔
کہاوتیں اور ضرب الامثال کسی قوم کے مجموعی مزاج کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ فاضل محقق نے کہیں پشتو کہاوتوں اور ضرب الامثال کی مثالیں دی ہیں، تو کہیں انہیں اردو میں بھی لکھا ہے۔ مقالے میں پختونوں کے جن امور پر زیادہ بحث کی گئی ہے۔ ان میں غیرت کا تصور، عورتوں کی تعلیم، جرگہ (ننواتے)، طعنہ (پیغور)، پردہ، رسم و رواج، حجرہ، مہمان نوازی، ملا کا کردار، خان کا کردار، اسلحہ، منشیات اور شادی بیاہ میں لڑکی سے اُس کی مرضی نہ پوچھنے کا رواج وغیرہ ایسے عناصر ہیں جو پشتون کلچر کو دیگر ثقافتوں سے منفردکرتے ہیں۔ بقولِ فاضل محقق: ’’یہ پشتونوں کی شناخت بھی ہے اور انفرادیت بھی۔‘‘
اس مقالے سے مطالعۂ ثقافت، مطالعۂ پاکستان، ادبیات اور سیاسیات کے علاوہ علمِ بشریات والے بھی استفادہ کرسکیں گے۔ ہم فاضل محقق کو اس محنتِ شاقہ پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا اُنہیں بادِ سموم کی بے اماں آندھیوں سے محفوظ رکھے، تاکہ وہ علم و ادب کی اسی طرح آبیاری کرتے رہیں۔

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔