کراچی سونے کی وہ چڑیا ہے جسے نوچ نوچ کر کھایا جا رہا ہے۔ آج کراچی کی حالت دیکھ کر یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے کہ صرف کراچی کو نوچا، لوٹا اور روندا جا رہا ہے۔ یہ سب کسی بیرونی دشمن نے نہیں بلکہ خود اہلِ کراچی نے کیا ہے۔ راقم شہر کے ان حالات کا ذمہ دار اہلِ کراچی کو ہی قرار دیتا ہے۔ کیوں کہ پڑھے لکھے، باشعور، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کراچی کے باسی ہی دراصل اس شہرِ ناپرساں کے ذمہ دار ہیں۔ کراچی میں صرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ اس میں پہلے سمندر ہوا کرتا تھا، اب یہ خود مسائل کا سمندر بن چکا ہے۔ جتنا بھی کراچی کے مسئلے کا حل سوچا جائے، مسائل کے سمندر کی گہرائی کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ جسے دیکھو، کچرے، گند اور غلاظت سے اٹے اس شہر کی بربادی پر فوٹو سیشن کرکے اس طرح غائب ہوتا ہے، جیسے کوئی ادھار لے کر غائب ہوتا ہے۔ یہ کراچی بھی کچھ ایسا ہی بن گیا ہے کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے آتے ہیں، زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور پھر اہلِ کراچی کو ٹوپیاں پہنا کر آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے دارالحکومت کا ایسا حال تو جنرل ایوب خان نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ ورنہ وہ کبھی اسلام آباد کو دارالحکومت نہ بناتے۔ دنیا کے صاف ترین اور ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہونے والا کراچی نہ جانے کس کی نظر لگنے سے تباہی، بربادی اور بے حسی کی تصویر بنا ہے؟

قارئین، پانی کا مسئلہ ہو، تو یہ کراچی کا سب سے دیرینہ مسئلہ ہے۔ سیورج کا نظام ہو، تو واٹر بورڈ کی تباہی سیاسی جماعتوں کے کارناموں کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔ روشنیوں کے شہر میں تاریک قبرستان جیسا اندھیرا ہو، تو اس کی ذمہ دار بھی سیاسی جماعتیں ہیں، جن کے ہاتھوں نادیدہ قوتوں کو بجلی کا نظام ایسا فروخت کیا گیا کہ برسوں تک تو یہ علم نہیں تھا کہ "کے ای ایس سی” کو فروخت کیسے کیا گیا ہے؟ بارانِ رحمت کے لیے نمازِ استسقا ادا کی جاتی تھی، واللہ یقین کریں کہ اب اہلِ کراچی دعا گو ہوتے ہیں کہ یا اللہ، کراچی میں بارش نہ ہو، یہاں تو جوانوں کے لاشے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ گھر اُجڑ جاتے ہیں۔ مائیں اپنی گود میں اٹھائے بچوں کی ہنسی اور کلکاریوں سے محروم ہوجاتی ہیں۔ گندگی اور غلاظت کا سیلاب، بدبو کا تعفن کراچی کی پہچان بن گیا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب کراچی کو "عروس البلاد” کہا جاتا ہے۔ اب شہرِ خموشاں سے بھی زیادہ تاریک ہے۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ آنکھوں والے اندھے بن گئے ہیں۔ آج انہیں پینے کے لیے صاف پانی نہیں بلکہ بیماریوں اور وباؤں کا بھرپور ٹانک پینے کو ملتا ہے۔ آج اہلِ کراچی سرِشام گھر لوٹ آتے ہیں۔ کیوں کہ دن ہو  یا رات کی تاریکی، ان کے جان و مال کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں۔ آج کوئی گھر، عمارت، سڑک، پارک کچھ بھی محفوظ نہیں۔ کسی کو پتا نہیں کہ کب اسے سزا کے طور پر بجلی کی کرسی پر بٹھا کر موت کے حوالے کر دیا جائے؟ سیاسی خانوادے پہلے کشتیوں میں بیٹھ کر فوٹو سیشن کیا کرتے، اب پہاڑوں پر بیٹھ کر "کلین اینڈ گرین پاکستان” کے مزے لے رہے ہیں۔ بیانات داغے جاتے ہیں۔ کوئی ایک ایسی سیاسی جماعت کا نام بتا دیں، جو کراچی کو اپنا شہر سمجھ کر اس کے دکھ اور تکالیف کا درد سمجھتی ہو؟ جس نے30 برس سے زائد بلا شرکتِ غیرے کراچی پر حکومت کی، تو وہ بھی الزامات کا پٹارا کھولے بیٹھے ہیں۔ جن کے پاس سب اختیارات ہیں اور تواتر سے تیسری صوبائی حکومت میں بلا شرکت غیرے براجمان ہیں۔ ان کے الزامات سن کر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

کراچی کو بدلنے کے دعویداروں کو ووٹ درکار تھا، بکس بھر بھر کر اتنا زیادہ ووٹ ملا کہ ان سے سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ آج ان کی رام کہانی سنیں، تو جیسے کراچی کو دو ہفتے میں جنت نظیر بنا دیں گے۔ خدارا، کراچی کو اتنا مت نوچ کر کھائیں کہ اس کی کھال بھی نہ بچے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک بس کراچی کے وسائل پر معاشی جارحیت ہی کی گئی ہے۔کراچی، پاکستانی معیشت کی ماں ہے۔ لیکن آج اس ماں کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے اور یہ سب اس ماں کے ناخلف بچوں نے کیا ہے۔ انہوں نے خود کو پُرفریب سہانے سپنوں سے نکالنے کے بجائے لسانیت، صوبائیت اور قوم پرستی کی دلدل میں دھنسنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ ان کے سامنے سب دودھ کے دھلے ہوئے تھے۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے گھر، چادر اور چار دیواری کو خود فریبی کا شکار کرکے کس طرح ان کے اور ان کی نسل کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔ ارے، یہاں تو شناخت کا مسئلہ زندگی موت کا مسئلہ بنایا گیا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ شناخت کیا، یہاں تو سب کی نسل ہی ختم کر دی جائے گی۔ کراچی کو جدید شہر بنانے والوں کو گالی، گولی نہ نکال سکی، تو انہیں پانی، ہوا، زمین اور آسمان کے سائے سے ہی محروم کردو، تاکہ کوئی سمندر میں ڈوب مرے، تو کوئی اپنا بوریا بستر اُٹھا کر دنیا کے دوسرے کونے میں چلا جائے۔

مَیں تو اہلِ پاکستان، بالخصوص کراچی کے باسیوں پر حیران ہوں کہ انہوں نے اپنی آستینوں میں سیاسی سانپ کیوں پال رکھے ہیں؟ کب تک اپنے وسائل کا دودھ ان سانپوں کو پلاتے رہیں گے؟ کیا انہیں پوری زندگی اسی طرح گزارنی ہے؟ کیا کبھی اپنے اِن نمائندوں کو جنہیں منتخب کرتے ہو، ندی نالوں میں فوٹو سیشن اور سیلفی لینے کے بجائے شرم سے ڈوب مرنے کا نہیں کہیں گے؟ اب تو چلو بھر پانی کی بھی ضرورت نہیں، کراچی کے کونے کونے میں گندے پانی کے جوہڑ موجود ہیں۔ کوئی حیا، کوئی شرم، کوئی غیرت ہو تو اس میں ڈوب کیوں نہیں جاتے؟

قارئین، یہ کراچی کا نوحہ ہے۔ جتنا بھی گریباں چاک کروں، خود ہی شرمندہ ہوں گا۔ اب کیا کہوں کہ یہ سب ہمارے اپنے ہی تو اعمال ہیں۔ چوری کی بجلی ہم استعمال کرتے ہیں۔ چوری کا پانی استعمال کرکے نماز، روزے ہم رکھتے ہیں۔ علاقوں میں گندگی اور نالوں میں تیر انداز، نیزے بازوں کی طرح پلاسٹک شاپروں کو بھر بھر کر کچرا ہم پھینکتے ہیں۔ اتنے ماہر ہیں، تو اولمپک جا کر میڈل کیوں نہیں لاتے؟ محلوں اور مرکزی گزرگاہوں میں اسپیڈ بریکر بناکر روڈ کا ستیا ناس ہم کرتے ہیں۔ اپنے گھروں کو صاف رکھتے ہوئے کچرا اٹھا کر پڑوس کے گھر کے سامنے ہم پھینکا کرتے ہیں۔ ندی نالوں، میدانوں اور پارکوں پر قبضہ ہم کرتے ہیں۔ کرپٹ سیاسی کرداروں کو کندھوں پر بٹھا کر نعرے ہم لگاتے ہیں۔ "بھنگڑا”، "اتنڑ” اور "اے جمالو” کرکے اپنی پلکیں بچھاتے ہیں۔ اندھوں میں ہم نے ان کانوں کو راجا بنایا ہوا ہے۔ اور کیا کہوں، اور کیا سناؤں، بقولِ شاعر:
صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے
پوچھے بھی کوئی تو چپ ہی رہیے

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔