تبصرہ نگار: ارسلان قادر 
ایک دن اُوشو سے کسی نے پوچھا کہ کون سی کتاب پڑھنی چاہیے، تو اُوشو کہنے لگے: ’’دیکھیے لوگوں کے گھروں میں لائبریری ہوتی ہے، جب کہ میرا گھر ہی لائبریری تھا، جہاں مَیں رہتا رہا۔ سب کتابیں پڑھ لیں، مگر مَیں آپ کو صرف ایک کتاب پڑھنے کا مشورہ دوں گا، وہ ہے کتابِ میرداد۔‘‘
میخائل نعیمی نے اپنی اس کتاب کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کا انتخاب خود کرے گی۔
اس کتاب کا مطالعہ اپنی زندگی میں دو بار مکمل کر چکا ہوں۔ پہلی بار اس کا مطالعہ 2017ء میں کیا اور ان دنوں میں سارا دن یونیورسٹی کی لائبریری میں گزارا کرتا۔ دوسری بار اس کا مطالعہ چند دن پہلے مکمل کیا۔
جب بھی مجھے لگتا ہے کہ میری خواہشات کا منھ زور طوفان میرے اندر کو توڑ رہا ہے، تو مَیں اس کتاب کا مطالعہ شروع کر دیتا ہوں۔ 2017ء، یہ میری زندگی کا وہ وقت تھا، جب مَیں اپنی زندگی کے مشکل فیز میں سے گزر رہا تھا۔ اس کتاب نے صرف مجھے اتنا ہی نہیں سکھایا کہ چیزوں کو کس نظر سے دیکھنا ہے، بلکہ معاملہ فہمی بھی سکھائی۔ زندگی کبھی سہل نہیں رہی، زندگی ایسے ہی ہے جیسے آپ کا ہاتھ کسی چرخے میں آگیا ہو اور آپ جیسے تیسے کرکے چار انگلیاں تو کسی طرح گھمن گھیر سے نکال لیں، مگر ایک انگلی پھر بھی پھنسی رہتی ہے یعنی موت۔
چند دن قبل بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ کتابِ میرداد کو اب پڑھا جائے کہ اب حالات قدرے 2017ء سے بہتر ہیں ۔ پہلی بار جب مطالعہ کیا تھا، تو مجھے لگا تھا کہ یہ صرف کتابی باتیں لکھی ہیں لیکن پریکٹیکل لائف میں آنے کے بعد باقاعدہ اُن چیزوں کا سامنا کیا، جو اِس کتاب میں لکھی ہیں۔ مجھے کئی دن لگ گئے اس کتاب کو پڑھنے میں اور پہلی بار اسے صرف تین دن میں مکمل کیا تھا۔ کبھی کبھار تو صرف ایک جملہ مکمل کیا اور بس اسی پر سوچنے بیٹھا، تو گھنٹوں بیت گئے۔ صبح اُٹھ کر بلیک کافی بناتا، بالکونی میں بیٹھ کر مشکل سے ایک باب کا مطالعہ کرتا اور ایسے ہی سوچنے بیٹھ جاتا کہ ہم چیزوں کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے ’’میرداد‘‘ دیکھتا ہے۔
اگر آپ سوچنے کا ایک الگ رنگ سیکھنا چاہتے ہیں، زندگی میں ٹھہراؤ لانا چاہتے ہیں اور حکمت کا کل نا سہی جزو پڑھنا چاہتے ہیں، تو اس کتاب کا مطالعہ پہلی فرصت میں کریں۔ آپ کو لطف آئے گا۔
آئیے! اس کتاب سے میرے پسندیدہ اقتباسات پڑھیے اور لطف لیجیے:
تمھیں زندگی اس لیے عطا کی گئی ہے، تاکہ تم محبت کرنا سیکھ سکو۔ تم محبت اِس لیے کرتے ہو، تاکہ تم جینا سیکھ لو۔ انسان سے کوئی اور سبق سیکھنے کی امید نہیں کی جاسکتی…… اور کیا محبت یہ نہیں کہ محب محبوب کو ہمیشہ کے لیے اپنی ہستی میں جذب کر لے، تاکہ وہ دونوں ایک ہو جائیں۔‘‘
’’اس طرح بولو جیسے کہ تمام کائنات ایک ہی کان ہو اور تمھاری کہی گئی بات سننے کے لیے بے تاب ہو اور اصل میں ہے بھی اِس طرح۔ اس طرح عمل کرو کہ جیسے تم نے ہر عمل اپنی ہی جان پر برداشت کرنا ہے اور واقعی برداشت کرنا بھی ہے۔ زندگی اس طرح گزارو جیسے کہ تمھارے خدا کو ضرورت ہو کہ تم اُس کی زندگی جیو اور اصل میں اُسے یہ ضرورت بھی ہے۔ اس کے، تمھارے!‘‘
’’جس کو تم بُرا سمجھ کر ناپسند کرکے چھوڑ دیتے ہو، اُس کو کوئی دوسرا شخص اچھا سمجھ کر قبول کرلیتا ہے۔ کیا کوئی چیز ایک ہی وقت میں اچھی اور بُری ہو سکتی ہے؟ وہ نہ اچھی ہے، نہ بُری ، سوائے اس کے کہ تمھارے من نے اُسے بُرا بنا دیا ہے کسی دوسرے کے من نے اُسے اچھا بنا دیا ہے۔‘‘
’’دوسروں کی تکلیف پر جینا عذاب کا شکار ہونا ہے۔‘‘
’’کیا تم نے اپنی روحوں کے تروتازہ بنجر زمینوں پر ہل چلایا ہے، جو طرح طرح کے جھاڑ جھنکاڑ سے بھری ہوئی ہے…… اور اس طرح یہ ایسا جنگل بن گئی ہیں جہاں خوف ناک درندے اور بھیانک سانپ پنپ رہے ہیں؟ کیا تم نے وہ مہلک جڑیں چن کر نکال دی ہیں جنھوں نے اندھیرے میں تمھاری جڑوں سے لپٹ کر ان کا گلا گھونٹ رکھا ہے، جو تمھارے پھلوں کے پھول نکلنے سے پہلے ہی انھیں نوچ رہی ہیں؟ جب تمھارا اصل سروکار لوگوں کی جیبوں سے ہو، تو انکے دلوں میں اترنے کا راستہ کس طرح ملے گا؟‘‘
’’کسی بھی انسان سے نفرت مت کرو۔ کیوں کہ کسی انسان سے نفرت کرنا، اُس کے اندر کے ’’لطیف خدا‘‘ سے نفرت کرنا ہے۔ اور کسی انسان کے اندر کے لطیف خدا سے نفرت کرنا اس (خدا) سے اپنے اندر نفرت کرنا ہے۔ وہ بندہ، جو اس کو بندرگاہ پر لے جانے والے واحد کپتان سے نفرت کرتا ہو، اپنی بندرگاہ پر کیسے پہنچے گا؟‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔