سانحہ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے کارکن دھڑا دھڑ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں اور پی ٹی آئی کے خیال میں یہ سب فوج کے ایما پر پارٹی چھوڑ رہے ہیں…… لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ اس کے پیچھے فوج ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بین الاقوامی حالات نے فوج کو سیاست سے کافی حد تک لاتعلق رہنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ فیصلہ سابق آرمی چیف کے دور میں ہوا تھا…… اور اسی فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔
ندیم فاروقی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/nadim/
جب فوج نیوٹرل ہوئی، تو زبردستی کے لائے گئے اتحادیوں نے عمران خان کو چھوڑنے میں تاخیر سے کام نہیں لیا۔ اس کا نیازی صاحب کو اتنا رنج ہوا کہ فوج کو نیوٹرل کا طعنہ ’’جانور‘‘ سے تشبیہ دے کر دیا۔ نیازی صاحب نے پوری کوشش کی کہ فوج دوبارہ سیاست میں حصہ لے کر اس کو وزیراعظم بنوائے۔ جلسوں میں فوج کو گالیاں اور رات کے اندھیرے میں ایوانِ صدر میں چھپ چھپ کر سابق آرمی چیف سے ملاقاتیں کرکے اُن کو سیاست میں حصہ لینے اور نیازی صاحب کو دوبارہ وزیرِاعظم بننے پر آمادہ کرتے رہے، لیکن بے سود۔
چوں کہ فوج اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ ’’پروجیکٹ نیازی‘‘ کو مزید سپورٹ کرنا نہ صرف فوج بلکہ ملک کی بقا کے لیے بھی نقصان دِہ ہے، تو اس لیے انھوں نے ہاتھ کھینچنے کا فیصلہ کیا۔ فوج کوئی سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک منظم ادارہ ہے، جس کے پاس نیازی صاحب جیسے یوٹرن کی گنجایش نہیں۔ فوج میں فیصلے ایک بار ہوتے ہیں اور پھر اُن پر عمل کیا جاتا ہے۔ فوج اپنی پالیسی پر کاربند رہی۔ نئے آرمی چیف نے بھی وہی پالیسی جاری رکھی…… اور فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کی کوشش کی۔
نیازی صاحب کو قتدار کے نشے نے بری طرح اپنی گرفت میں لیا تھا۔ چوں کہ وہ 2018ء میں فوج کے تعاون سے اقتدار میں آیا تھا،اِس لیے اُس کو پکا یقین تھا بلکہ آج بھی ہے کہ اگر اقتدار میں آنا ہے، تو فوج کے بغیر یہ ناممکن ہے۔ سیاست دان تو وہ کبھی تھا، نہ ہے اور نہ آگے ہی بن سکتا ہے۔ اِس لیے اقتدار میں دوبارہ آنے کے لیے اُس کو فوج کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے۔ یہی ضرورت اُس کو بار بار فوج کو سیاست میں گھسیٹنے پر مجبور کرتی رہی۔ شروع میں خوشامد اور ڈھکی چھپی تنقید کے ذریعے کوشش کی کہ فوج سے بات بن جائے، لیکن جب یہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں، تو پھر ایک منظم پروپیگنڈے کے ذریعے فوج اور مختلف فوجی افسران کو متنازع معاملات میں گھسیٹا شروع کیا۔ انھوں نے صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کو بھی فوج کے کچھ افسران کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ وزیر آباد میں اپنے اوپر قاتلانہ حملہ بھی فوج کے حاضرِ سروس افسروں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔ ’’میر جعفر‘‘، ’’میر صادق‘‘ اور ’’ڈرٹی ہیری‘‘ جیسی اصطلاحات فوج کے جرنیلوں اور افسران کے لیے استعمال کیں لیکن فوج پھر بھی سیاست سے دور رہی۔ یہ کام بہت منظم انداز میں ہوتا رہا۔ کارکنوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ پی ٹی آئی کو اقتدار سے صرف فوج نے دور رکھا ہے، اور ان کی تمام تر ناکامیوں کی ذمے دار فوج ہے۔ اس کام کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا۔
اس دوران میں زمان پارک میں رنگین شاموں اور نیازی صاحب کی تقاریر نے عوام کو جمع کرنا شروع کردیا۔ رہی سہی کسر ہماری عدلیہ کے کچھ ججوں نے متنازع فیصلے دے کر پوری کردی۔ زمان پارک کو ’’نو گو ایریا‘‘ بنا دیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا زمان پارک میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔ حکومتی اور عدالتی احکامات کو ہوا میں اُڑا دیا گیا۔ پولیس کے ساتھ دو بہ دو لڑائی اور پٹرول بموں کا استعمال کوئی پرانے واقعات نہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک شخص نے پوری ریاست کو یرغمال بنا دیا۔ کچھ میڈیا چینلوں اور یوٹیوبروں نے بھی اُن کا بھر پور ساتھ دیا، اور یوں لگا کہ پاکستان میں تو عمران خان کے علاوہ کوئی سیاست دان ہے ہی نہیں۔ نہ پی ٹی ائی کے علاوہ کوئی سیاسی پارٹی ہی ہے۔
یہاں پر موجودہ اتحادی حکومت کی نااہلی نے بھی خان صاحب کو مضبوط کرنے میں مدد دی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ ابن الوقت سیاست دانوں نے بھی آیندہ الیکشن کے لیے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور یوں زمان پارک ابن الوقت سیاست دانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ یہ الگ داستان ہے کہ پنجاب کی صوبائی الیکشن کے لیے خان صاحب نے امیدواروں سے کتنے پیسے وصول کیے……! شاید کبھی نیب یا کوئی اور ادارہ تحقیقات کرے، تو پتا چل جائے۔ لیکن ایک سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی ویڈیو لیک سے پتا چلا کہ خان صاحب کے ساتھ کچھ اور بھی مقتدر لوگوں نے ٹکٹوں کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے پرانے ورکر جو ٹکٹ کی امید پر تھے، اُن کو ٹکٹ نہیں ملے، جس سے کافی لوگ مایوس ہوگئے اور انھوں نے سوشل میڈیا اور دیگر فورموں پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور اس پر احتجاج بھی کیا۔
9 مئی کے بعد پارٹی چھوڑنے والوں میں ایک گروپ اُن لوگوں کا ہے جو پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض تھے۔
دوسری قسم اُن لوگوں کی ہے جن کو 9 مئی کے بعد حالات کا اندازہ ہوا جب خان صاحب کے کارندوں نے ملک بھر میں فوجی اور سرکاری تنصیبات پر منظم حملے کیے۔ اُن حملوں کو آرگنائز کرنے میں پی ٹی آئی کی اعلا قیادت کا کردار مختلف ویڈیوز کی صورت میں سامنے آیا اور پی ٹی آئی کا اینٹی فوج بیانیہ اور ریاست پر بزورِ بازو قبضہ کرنے کا ایجنڈا کھل کر سامنے آیا۔ یوں محب وطن اور امن پسند لوگوں نے پی ٹی آئی سے اُڑان بھرنے میں عافیت جانی۔
تیسری قسم اُن لوگوں کی ہے جو پاکستانی سیاست کو سمجھتے ہیں اور وہ فوج کے کردار سے بھی واقف ہیں۔ وہ فوج سے کسی قسم کا بگاڑ نہیں چاہتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمیشہ ڈھکے چھپے الفاظ میں یا نجی محفلوں خان صاحب کے فوج مخالف نظریات سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کے شکوک و شبہات 9 مئی کو حقیقت میں بدل گئے، تو انھوں نے پارٹی چھوڑ دی۔
چوتھی قسم اُن لوگوں کی ہے جن کو پرائے شادی میں عبداللہ دیوانہ یا پشتو میں ’’الی خادیان‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ناچنے گانے والے، نعرے لگانے والے، پیپسی کی ایک بوتل اور بریانی کی پلیٹ کے لیے ہر جگہ حاضر ہونے والے ہیں۔ اب جب جان پر بن آئی، تو وہ بھاگنے میں وقت تو ضائع نہیں کریں گے۔ کل کسی اور کی شادی میں ناچییں گے اور بریانی کھائیں گے۔
اور ہاں 2018ء کے الیکشن میں جو لوگ ’’بوائز‘‘ کے کہنے پر پی ٹی آئی میں بقولِ قاسم سوری ڈیپوٹیشن پر آئے تھے، تو ان کی مدت پوری ہوئی۔ جن کے کہنے پر پی ٹی آئی جوائن کی تھی، اُنھی کے کہنے پر چھوڑ دی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔