پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک مرتبہ پھر بلے سے محروم کر دیا۔ اسی ہائیکورٹ کے یک رُکنی پنچ نے ایک حکمِ امتناع کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو وقتی طور پر غیر موثر کر دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف حکمِ امتناع دیتے ہوئے حیرت انگیز طور پر جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا اور پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کا موقف سننا یا اسے نوٹس بھیجنا بھی مناسب نہ سمجھا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ نے بھی پشاور ہائیکورٹ کے اس رویے اور عمل پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
جہاں تک الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی سے اس کے انتخابی نشان بلے کو واپس لینے کا تعلق ہے، تو الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ چوں کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات ’’فری ایند فیئر‘‘ نہیں کروائے۔ اس نے اپنی پارٹی کے ارکان ہی کو لیول پلینگ فیلڈ دینا تو درکنار پلینگ فیلڈ بھی نہیں دی، لہٰذا ان انتخابات کو کالعدم قرار دینا ضروری ہے۔ یادرہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کراتے وقت پی ٹی آئی نے انتہائی مضحکہ خیز طریقہ اختیار کیا تھا۔ ارکان سے الیکشن کا تمام پروسیجر اس طرح چھپایا گیا تھا جس طرح اپنے گناہ چھپائے جاتے ہیں۔ اگر کسی نے کاغذاتِ نام زدگی حاصل کرنے کی کوشش کی بھی، تو اُسے نہیں دیے گئے۔ یہ مکمل طور پر سلیکشن تھی۔ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن خیبر پختونخوا میں کروانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اگر الیکشن کمیشن اُنھیں تسلیم نہ کرے، تو پشاور ہائیکورٹ سے اس کے خلاف ریلیف لیا جاسکے۔ ایسا ہی ہوا۔ پشاور ہائیکورٹ نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے پی ٹی آئی کو بلے کے نشان کی واپسی پر حکمِ امتناع دے دیا، جسے اب الیکشن کمیشن کا موقف سننے کے بعد خارج کر دیا گیا ہے۔
اس کیس کی باقاعدہ سماعت 9 جنوری کو ہوگی اور یہ فیصلہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات سے جج صاحبان مطمئن ہیں یا نہیں؟ حکمِ امتناع کے اخراج کے بعد پی ٹی آئی کا بڑا دلچسپ ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ اس نے فوراً ہی اعلان کر دیا کہ وہ اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ جائے گی۔ یہ دلچسپ ردِعمل اس لیے ہے کہ کیس تو ابھی پشاور ہائیکورٹ میں ہے۔ 9 جنوری کو اس کی سماعت ہے۔ اس کے بعد فیصلہ ہونا ہے۔ پی ٹی آئی کس بنیاد پر سپریم کورٹ میں اپیل کرے گی اور فیصلہ ہونے سے پہلے فیصلے کی کاپی اپنی درخواست میں کس طرح لگائے گی؟
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے لیے ضابطۂ اخلاق  
انعقاد سے قبل ہی انتخابات متنازع ہوگئے 
وکلا تنظیمیں، الیکشن کمشنر اور عام انتخابات  
انتخابات کے التوا کا خدشہ  
1965 عیسوی کے صدارتی انتخابات  
جب سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کی کارروائی کی براہِ راست کوریج کی اجازت دی ہے، قوم کے سامنے بڑے بڑے نام ور وکیلوں کی قابلیت کی قلعی کھل رہی ہے۔ پتا چل رہا ہے کہ اُن کی تیاری کا معیار کیا ہوتا ہے اور جج صاحبان کے سوالوں کے جواب میں وہ کیسے بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں۔ لیول پلینگ فیلڈ میں پی ٹی آئی کے وکیل جناب لطیف کھوسہ صاحب سے جناب چیف جسٹس نے جب یہ پوچھا کہ اُن کی پارٹی کے کتنے امیدواروں نے کاغذاتِ نام زدگی جمع کروائے، تو وکیل محترم کو تعداد کا علم نہ تھا۔ وہ اس بات سے بھی لاعلم تھے کہ کتنے امیدواروں کے کاغذات مسترد اور کتنوں کے منظور ہوئے۔ اُن کے دلائل کا انحصار سوشل میڈیا سے اکٹھی کی گئی معلومات پر تھا، جو ظاہر ہے قابلِ اعتبار نہیں ہوتیں۔ یہ معلومات ایک ویڈیو میں ریکارڈ کی گئی تھیں جو لطیف کھوسہ صاحب بطورِ دلیل عدالت کے روبہ رو پیش کرنا چاہتے تھے۔ مصدقہ معلومات شاید اُن کے پاس موجود نہ تھیں۔ سوشل میڈیا پر تو 90 سے 95 فی صد پی ٹی آئی کے اُمیدواروں کے کاغذات مسترد ہونے کا واویلا مچایا جا رہا ہے، جب کہ حقیقت میں یہ ریشو 14 فی صد کے قریب ہے۔ تمام جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے کاغذات مسترد ہونے کی کل ریشو فافین کی رپورٹ کے مطابق ساڑھے بارہ فی صد ہے۔ اُن میں سے بھی بہت سوں کے کاغذات اپیل میں منظور ہو جائیں گے۔ جناب لطیف کھوسہ ٹھوس اور مصدقہ معلومات کی بجائے سوشل میڈیا پر انحصار کریں گے، تو عدالت ان ’’ثبوتوں‘‘ اور ’’شہادتوں‘‘ کو کیسے تسلیم کرسکتی ہے۔ لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کے غبارے سے پی ٹی آئی کے وکلا خود ہی ہوا نکال رہے ہیں۔
یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن میں اپنے ہی پارٹی ارکان کو لیول پلینگ فیلڈ نہ دے کر جو بری مثال قائم کی ہے، اُس کی روشنی میں الیکشن کمیشن میں وہ کس قسم کی لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہی ہے؟ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن میں اپنے ہی ورکروں کو کاغذاتِ نام زدگی جاری کیے، نہ جمع کروانے دیے، جب کہ عام انتخابات میں کاغذات جمع اور منظور ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد پی ٹی آئی والوں کی ہے۔ پی ٹی آئی کی اپنے ورکرز کو دی گئی لیول پلینگ فیلڈ کا موازنہ الیکشن کمیشن کی دی گئی لیول پلینگ فیلڈ سے کریں، تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پی ٹی آئی لیول پلینگ فیلڈ نہیں چاہتی بلکہ فیور ایبل پلینگ فیلڈ چاہتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔