رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
جیسی لازوال اور شہرہ آفاق غزل، شاعر احمد فرازؔ اور گلوکار مہدی حسن کے لیے خوش نصیبی کا باعث بنی تھی۔ اس غزل نے اُن دونوں کو شہرت کے ساتویں آسمان تک پہنچا دیا۔ اس غزل کو موسیقارِ اعظم نثار بزمی نے کمپوز کیا تھا۔
نثار بزمی سیّد گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن سے پہلے اس خاندان میں کسی کو بھی موسیقی سے لگاؤ نہ تھا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
نثار بزمی یکم دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ضلع خان دیش کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ والدین نے ان کا نام سیّد نثار احمد رکھا، مگر وہ دنیائے موسیقی کے آسمان پر نثار بزمی کے نام کا ستارا بن کر چمکے اور ایسے چمکے کہ ستارا تو ڈوب گیا، لیکن اُس کی روشنی ابھی تک فنِ موسیقی کے مسافروں کے لیے قطبی تارا بنی ہوئی ہے۔
نثار بزمی بچپن میں مشہور بھارتی موسیقار امان علی خان سے متاثر تھے۔ اُنھی کی رفاقت میں 13 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے نثار بزمی بہت سے راگوں پر عبور حاصل کرچکے تھے۔ ریڈیو بمبئی (موجودہ ممبئی) میں بطورِ موسیقار کام کرنے کا موقع ملا، جہاں 1944ء میں اُنھوں نے ممبئی ریڈیو سے نشر ہونے والے ڈرامے ’’نادر شاہ درانی‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ اُس ڈرامے کے سارے گیت ہی سُپر ہٹ ثابت ہوئے اور نثار بزمی کی شہرت کی خوش بو پھیلتی ہوئی ممبئی فلم انڈسٹری تک جا پہنچی۔ اے آر زمیندار نے اُن سے اپنی فلم ’’جمنا پار‘‘ کے گانے کمپوز کرنے کی پیشکش کر دی۔ یہ فلم 1946ء میں ریلیز ہوئی، مگر نثار بزمی کو اصل شہرت فلم کھوج کے گیت ’’چاند کا دل ٹوٹ گیا، رونے لگے ہیں ستارے‘‘ سے ملی، جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ اگلے بارہ برس کے دوران میں نثار بزمی نے 40 ہندوستانی فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لتا، محمد رفیع، آشا بھوسلے اور منّا ڈے سے گیت گوائے۔
ممبئی میں نثار بزمی بے پناہ مصروف موسیقار تھے۔ معروف موسیقار جوڑی کلیان جی، آنند جی اُن کی ٹیم کے سازندے تھے، جنھیں اُٹھا کر اُنھوں نے مشہور موسیقار بنا دیا، مگر معاوضے کے اعتبار سے نثار بزمی کا شمار تیسرے درجے کے موسیقاروں میں ہوتا تھا۔ شاید اس کی وجہ متعصب ہندو معاشرے میں اُن کا مسلمان ہونا تھا۔ حالاں کہ وہ ایک کے بعد ایک ہٹ گیت دے رہے تھے۔ چندا کا دل ٹوٹ گیا، جگ میں چلتی کانام گاڑی، دل دھڑکا میں پھڑکا، یوں نہ چھیڑو بلم کوئی نہ آ جاؤ، جانے کیا بات ہوئی نین جھکے، مَیں ہوں بانکا چھبیلا، نینوں کے تیر جدھر ٹوٹ گئے، یہ دنیا ہے آنی جانی، جینے والے تُو اگر مرنے سے ڈرنا چھوڑ دے، اور ان جیسے درجنوں گیت زبان زدِ عام تھے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
محشرؔ لکھنوی کی یاد میں 
منو بھائی کی یاد میں 
ڈاکٹر خالق زیارؔ کی یاد میں 
عبد اللہ حسین کی یاد میں 
1962ء میں نثار بزمی پاکستان آگئے۔ ممبئی میں وہ نام ور موسیقار شمار ہوتے تھے۔ اُن کے کریڈٹ پر چالیس انڈین فلمیں بھی تھیں، مگر اس دور میں بطورِ موسیقار پاکستان میں قدم جمانا آسان کام نہ تھا۔ یہاں موسیقی کے آسمان پر ستاروں کی کہکشاں موجود تھی، جس کا ہر ستارا چاند کی طرح روشن تھا۔ فلمی موسیقی میں خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے جیسے عظیم نام راج سنگھاسن پر براجمان تھے۔ بابا جی اے چشتی، فیروز نظامی، روبن گھوش، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر عبداللہ، سہیل رعنا اور حسن لطیف اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے۔ زیادہ کمرشل سطح پر منظوراشرف، دیبو، ناشاد، اے حمید، سلیم اقبال، تصدق حسین، لعل محمد اقبال، رحمان ورما، بخشی وزیر، خلیل احمد اور وزیر افضل چھائے ہوئے تھے۔ گویا فلمی موسیقی کا پیالہ موسیقاروں نے دودھ کی صورت بھر رکھا تھا۔ مزید ایک قطرے کی گنجایش بھی نہ تھی۔ نثار بزمی فن کے پختہ اور دھن کے پکے تھے۔ اُنھوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ دودھ میں دودھ بن کر شامل ہونے کی بجائے دودھ کی سطح پر گلاب کی پتیاں بن کر بکھر جائیں گے۔ دودھ کو خوش بودار بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی الگ شناخت بھی برقرار رکھیں گے۔
پاکستان میں نثار بزمی کو پہلی فلم ’’ہیڈ کانسٹیبل‘‘ ملی۔ یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی، تاہم ایک برس بعد فضل کریم فضلی کی فلم ’’ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ نے اُن کی قسمت کے ستارے کو بلندیوں کی طرف گام زن کر دیا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد شہرت اور فلم انڈسٹری کے دروازے اُن پر کھل گئے۔ 1966ء میں اُنھوں نے فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ کی موسیقی ترتیب دی، تو ہر طرف اُن کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ اور پھر ایک کے بعد ایک سپر ہٹ اور بلاک بسٹر فلمیں نثار بزمی کے کریڈٹ پر آتی چلی گئیں۔ اُن کی اہم فلموں میں صاعقہ، تاج محل، آسرا،انیلہ، جیسے جانتے نہیں، عندلیب، ناز، بے وفا، نورین، الجھن، محبت رنگ لائے گی، شرارت، اجنبی، تلاش، آگ اور آنسو، ناگ اور ناگن، سچائی، نیا سورج، جان کی بازی، آس پاس، ہم ایک ہیں، جوندیا مرگ (پشتو)، تہذیب، ناگ منی، میری زندگی ہے نغمہ، امراؤ جان ادا، سرحد کی گود میں، ملاقات، دل کا شہر، پیاسا، آس، انمول، بات پہنچی تری جوانی تک، نمک حرام اور انتظار شامل ہیں۔
پاکستان میں چند ہی برسوں میں نثار بزمی نے بطورِ موسیقار ایک معزز مقام حاصل کر لیا، غزل کی گائیکی کے لیے درکار نیم کلاسیکی دھنوں سے لے کر فوک اور پوپ میوزک کی دھڑکتی پھڑکتی کمپوزیشن تک اُنھیں ہر طرح کی بندشوں میں کمال حاصل تھا۔ وہ سُروں کے معاملے میں بہت سخت تھے۔
نثار بزمی خود بھی بہترین کام کرتے اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے۔شاید اسی لیے اُن کے سخت ہونے کے چرچے تھے۔
نور جہاں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ریکارڈنگ سے صرف دس منٹ پہلے پہنچتی تھیں اور ایک ہی ٹیک میں ریکارڈنگ کروا کر چلی جاتی تھیں، مگر نثار بزمی کے معاملے میں ایسا نہ تھا۔ نور جہاں نے خود ایک بار بتایا تھا کہ ’’نثار بزمی کی ریہرسل میں ہمیشہ وقت سے پہلے پہنچتی ہوں اور سُروں کے اُتار چڑھاو کی مشق کرتی ہوں۔ کیوں کہ وہ ایک عظیم موسیقار ہیں اور فن کی باریکیوں سے نہ صرف خود آگاہ ہیں، بلکہ دوسروں کو سمجھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
نثار بزمی کو 1968ء میں فلم صاعقہ اور 1970ء میں فلم انجمن کی موسیقی پر نگار ایوارڈ دیا گیا…… لیکن یہ تو ابتدا تھی۔ اُنھوں نے کُل سات نگار ایوارڈ جیتے۔ 1972ء میں فلم ’’میری زندگی ہے نغمہ‘‘ اور1979ء میں فلم ’’خاک اور خون‘‘ کی موسیقی پر نثار بزمی کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) سے نوازا گیا۔
نثار بزمی نے نور جہاں اور مہدی حسن جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ اخلاق احمد اور رونا لیلیٰ جیسی نوخیز آوازوں کو بھی نکھرنے اور سنورنے کا بھرپور موقع دیا۔ رونا لیلیٰ کا گایا گیت ’’دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ‘‘ نصف صدی بعد بھی روزِ اول کی طرح مقبول ہے۔
نثار بزمی کا انتقال 22 مارچ 2007ء کو 83 سال کی عمر میں کراچی میں ہوا۔
اب نثار بزمی کے کچھ مشہور نغمات ملاحظہ ہوں:
چلو اچھا ہوا تم بھول گئے
ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا
آپ دل کی انجمن میں حُسن بن کر آ گئے، ایک البیلا سجن تُو نے گرفتار کیا، آ میری زلف کی زنجیر تجھے پیار کروں، اللہ ہی اللہ کیا کرو دُکھ نہ کسی کو دیا کرو، دیکھا جو میرا جلوہ تو دل تھام لوگے، کاٹے نہ کٹے رے رتیاں سیّاں انتظار میں، دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں کہتی ہے میری نظر شکریہ، اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے، وغیرہ!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔