بڑوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، جو رعایا کو زندگی کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے شبانہ روز محنت میں لگی رہتی ہے کہ رعایا کو جتنا ہوسکے زندگی کی سہولیات مہیا کرسکے۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
ہمارے سیاسی عمائدین الیکشن مہم میں یہ بلند بانگ دعوے آپ کو کرتے نظر آتے ہوں گے کہ اقتدار میں آکر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات ایک کرکے محنت کریں گے اور اُنھیں ضروریاتِ زندگی کی کسی بھی چیز کا محتاج نہیں ہونے دیں گے، لیکن در پردہ اُن کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔
عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اقتدار میں آنے کے بعد وہ ذاتی مراعات اور مفادات کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ البتہ اشک شوئی کے لیے پارلیمان کے اجلاس میں عوام کی بہبود کے لیے آواز اُٹھاتے ضرور ہیں۔ ان کا یہ عمل نقار خانے میں توتی کی آواز کے مترادف ہوتا ہے۔ ماضی میں ہر برسرِ اقتدار حکومت کو آمروں نے اس لیے برطرف کیا کہ وہ قومی خزانے کو لوٹ رہے تھے، لیکن عوام کی فلاح و بہبو د کے لیے کوئی پروگرام نہیں تھا۔
برسرِ اقتدار حکم رانوں پر اپوزیشن میں بھی یہی الزامات لگتے نظر آئے اور اُنھوں نے بظاہر عوام کے لیے فوجی آمروں کا ساتھ بھی دیا، مگر جب اپوزیشن خود اقتدار میں آئی، تو اپنی پیش رو حکومت سے خود غرضی اور کرپشن میں دو ہاتھ آگے رہی۔ نہ اسے عوام یاد رہے اور نہ اُن کی مشکلات۔
تحریکِ انصاف حکومت کے دوران میں اپوزیشن (پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں) یہ رونا روتی رہی کہ تحریکِ انصاف کے نااہل حکم رانوں نے عوام کو مہنگائی کے سوا کچھ نہیں دیا، جسے بہانہ بناکر اپوزیشن آئے دن جلسے جلوس اور مہنگائی مارچ میں اپنا حصہ ڈالتی رہی، مگر جب پی ڈی ایم کو اقتدار ملا، تو اس نے 16 ماہ میں ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے قانون سازی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ نگران حکومت کے قیام کے بعد وہ بھی مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کو مدِ نظر رکھ کر ہر پندرہواڑے گیس، بجلی بلوں اور پیٹرلیم مصنوعات میں اضافہ کر رہے ہیں، جب کہ دوسری طرف عوام بجلی بلوں اور مہنگائی کی وجہ سے احتجاج پر مجبور ہیں، اور لوگ ملک چھوڑکر بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ’’لوگ باہر جارہے ہیں، تو کیا ہوا!‘‘
جمعرات کو اسلام آباد میں نگران وزیرِ اعظم نے سینئر صحافیوں سے ملاقات میں سوال و جواب کے دوران میں مہنگائی، بجلی، گیس بلوں اور پیٹرولیم مصنوعات کے اضانے کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوں پر احتجاج سنجیدہ مسئلہ نہیں۔ بلوں کے ایشو کو بڑھا چڑھا پیش کیا جارہا ہے۔ مہنگائی اتنی نہیں کہ عوام پہیا جام ہڑتال کرتے پھریں۔ ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت بے چینی اور مایوسی پھیلائی جارہی ہے۔
اللہ، نگراں وزیرِ اعظم جناب کاکڑ کو بصیرت اور آگاہی دے کہ اُنھیں معلو ہو کہ عوام کس حال میں ہیں…… اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پر کیسی کیسی مصیبتیں ٹوٹ رہی ہیں!
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی پاس داری کے لیے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافے نے ہوش ربا مہنگائی کو جنم دیا۔ صنعت کار، تاجر، دکان دار سمیت ہر شخص اس وقت پریشان حال ہے۔ حالات روز بہ روز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ بجلی بلوں کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ واپڈا اہل کاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لوگوں نے موٹر سائیکل یا گھر والی کے زیور فروخت کرکے بجلی کے بل ادا کیے ہیں۔ بجلی بلوں میں اضافے نے عوام کو ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم کرکے خود کُشی پر مجبور کر دیا ہے۔
سٹاک مارکیٹ میں 79 فی صد حصص گرچکے ہیں۔ اس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا ایک کھرب 79 ارب اور 82 کروڑ سے زیادہ سرمایہ ڈوب گیا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرتے گرتے 305.53 روپے تک آگئی۔
اس طرح متعدد صنعتیں خام مال کی عدم دست یابی کی وجہ سے اپنی پیداواری سرگرمیاں بند کرچکی ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک 1971ء جیسے حالات کی طرف دوبارہ گام زن ہے۔ وطنِ عزیز کے وجود کو خدشات لاحق ہیں اور صاحبِ بصیرت لوگو ں پر کپکپاہٹ طاری ہے۔
معلوم نہیں نگراں وزیرِ اعظم کون سی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ اُنھیں ملکی حالات کا علم نہیں۔ عوام کا تو یہ کہنا ہے کہ حکم ران ہمارا خون نچوڑ کر عیاشی کر رہے ہیں۔ حکم رانوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
نگران وزیرِ اعظم جان لیں کہ لوگ بیرونِ ملک اس لیے جا رہے ہیں کہ یہاں روزگار نہیں، مہنگائی ہے، کسی کی جان و مال محفوظ نہیں، انصاف یہاں نہیں ملتا، حکم رانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنا غداری کے مترادف ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بات کرنا موت کو دعوت دینے سے کم نہیں۔ ملک پر قبضہ مافیہ اور رسہ گیروں کا راج ہے۔ زندگی کی تمام سہولیات اشرافیہ کو میسر ہیں، جب کہ عوام بے وقت کی موت مر رہے ہیں۔ عوام قاتلوں اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں اور قانون کے رکھوالوں کو اشرافیہ کے پروٹوکول سے فراغت نہیں۔
عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ نگران حکومت دراصل پی ڈی ایم حکومت کا پرتو ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ اس لیے اچھائی کی امید عبث ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔