سوات میں ایک سال پہلے آنے والے سیلاب کے بعد دوست ممالک کی جانب سے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے آنے والا سامان اب تک سیلاب زدگان میں تقسیم نہ ہوسکا۔ بیشتر سامان بازار میں فروخت ہورہا ہے۔
پچھلے سال 26 اگست کو سوات میں سیلاب آیا تھا جس کے بعد حکومتِ پاکستان نے دوست ممالک سے امداد کی اپیل کی تھی۔ دوست ممالک نے سوات کے سیلاب زدگان کے لیے امدادی سامان بھیجا، جس میں ٹینٹ، میٹرس، کمبل، گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے سیمنٹ، کوئلہ، پینے کے لیے منرل واٹر اور دیگر خوراکی اشیا شامل ہیں۔ ابھی تک سیلاب زدگان کو مذکورہ اشیا نہ مل سکیں۔ بیشتر سامان ایک سال گزرنے کے بعد بھی ڈپٹی کمشنر سوات کے ساتھ گوداموں میں پڑا ہے۔
سیلاب زدگان کے لیے تاجکستان سے آنے والا بیشتر سامان ایک سال گزرنے کے بعد آج بھی بازار میں فروخت ہورہا ہے۔ یہ سامان جس میں زیادہ تر سیمنٹ ہے، کم نرخ پر بازار میں فروخت ہورہا ہے۔ کچھ دکان داروں نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیلاب زدگان کا غیر ملکی امدادی سامان اُن کو مختلف ٹھیکیدار فروخت کرتے ہیں، جو یہ سامان ڈپٹی کمشنر کے گوداموں سے حاصل کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر سوات عرفان اللہ مروت کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا گیا، تو اُنھوں نے بتایا کہ اس کام کی نگرانی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا کام ہے اور وہ آپ سے رابطہ کرے گا۔ جس کے بعد ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریلیف نے رابطہ پر اس بات کی تصدیق کی کہ ابھی تک سیلاب زدگان کا سامان اُن کے پاس موجود ہے۔ مذکورہ امداد سے 9 ہزار عام مستحق لوگوں کو (سیلاب زدگان نہیں) ان کی درخواست پر امدادی سامان مہیا کیا گیا ہے۔ جب بھی کسی گھر کی چھت یا دیوار گرتی ہے، تو مذکورہ سامان سے اُن کو دیا جاتا ہے۔
بازار میں سیلاب زدگان کے سامان کے فروخت ہونے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کو اطلاعات نہیں، تاہم اگر کوئی یہ امدادی سامان لے کر بازار میں فروخت کرے، تو اُن کے خلاف وہ کیا کارروائی کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر اس سامان کی فروخت کے بارے میں کوئی اُن کو اطلاع دے، تو وہ ایسے دکان داروں کے خلاف ضرور کارروائی کریں گے۔