مجھے پہلی بار 18 جنوری 1980ء کو صوبہ بلوچستان کے شہر چمن جو کہ پاکستان اور افغانستان کے عین بارڈر پر واقع پاکستانی شہر ہے، جانے کا موقع ملا۔ پاکستان اور روس کے درمیان اپریل 1990ء کو طے پانے والے ’’جنیوا معاہدے‘‘ تک میں کئی بار چمن شہر آ جا چکا تھا۔ چمن تک کا میرا یہ سفر اکثر روڈ کے ذریعے ہوتا تھا۔ البتہ بارشوں کے سبب سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے ایک بار گھر آتے ہوئے مَیں نے چمن سے کوئٹہ تک کا سفر ریل کے ذریعے کیا تھا۔ اب ایک عرصہ گزرنے کے بعد آج بیٹھے بیٹھے مجھے ’’خوجک ریلوے ٹنل‘‘ پر لکھنے کا خیال آیا۔ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے چمن تک کا فاصلہ 142 کلومیٹر ہے۔ آج کی اس تحریر میں جو معلومات آپ تک پہنچانے جارہا ہوں، زیادہ ترسوشل میڈیا پر موجود ہیں، لیکن پڑھنے والوں کی آسانی کے لیے انھیں یہاں شیئر کر رہا ہوں۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
برطانوی سامراج نے جب 1876 ء کو کوئٹہ بلوچستان پر قبضہ کرلیا، تو برطانوی سرکار کو یہ اطلاعات ملیں کہ 1850 ء سے روس بلوچستان کے علاقہ سبی شہر میں سرگرم ہے۔ سبی شہر سے چند نامی گرامی روسیوں کی قبریں بھی ملی ہیں۔ انگریز سرکار کو اس ڈر نے آلیا کہ روس اسی راستے سے سمندر پہنچنا چاہتا ہے۔ برطانوی ایڈوانس پالیسی کے تحت فوجی مقاصد کے حصول اور روس کا راستہ روکنے کے لیے 1857 اور 58ء کو سکھر (سندھ) سے افغانستان کے شہر قندہار تک ریلو ے لائن بیچانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ریلوے لائن کے اس منصوبے پر 4 اپریل 1888ء کو آغاز ہوا، جب کہ چمن سے قندہار تک ریلوے لائن کا منصوبہ ترک کر دیا گیا۔ کوئٹہ سے 112 کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے دامن میں واقع گاؤں ’’شیلا باغ‘‘ (Shela Bagh) جب کہ پہاڑی سلسلے کی دوسری جانب چمن سے 19 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے دامن میں واقع گاؤں ’’سنزالہ‘‘ (Sanzala) کے درمیان ’’خواجہ عمران‘‘ (Khwaja Imran)، ’’توبہ کاکڑ‘‘ (Toba Kakar) یا ’’توبہ اچکزئی‘‘ (Toba Achakzai) کے پہاڑی سلسلے کے نام سے مشہور ہے، اس پہاڑی سلسلے میں ریلوے لائن بچھانے کے لیے 3.912 کلومیٹر (2.415 میل) لمبی سرنگ تعمیر کی گئی جو کہ ’’خوجک ٹنل‘‘ (Khojak Tunnel) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُسی زمانے میں علاقے میں ماہر مزدور موجود نہ تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہرات، سیسستان، قندہار، غزنی، کابل، جلال آباد، سوات، بنوں، کافرستان، کشمیر، تبت، پنجاب، مکران، گلگت، مکران، عرب، گلف اور دیگر علاقوں سے لوگوں کو بھرتی کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ کے لوگ، سکھ ترکان، مستری اور اینٹ بنانے والے بنگالیوں کے علاوہ بلڈنگ اور ٹنل بنانے والے ماہرین کو برطانیہ سے لایا گیا، جب کہ کام کے اوزار اور لوہے کا دیگر ساز و سامان بھی برطانیہ سے لایا گیا۔
ٹنل پر کام کرنے والے مزدوروں اور سامان کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ عارضی ریلوے لائن اور عارضی ٹرالیاں بنائی گئیں۔ ٹنل کی تعمیر میں روزانہ کی بنیاد پر 8 ٹن پانی استعمال ہوتا تھا۔ بورنگ کے دوران میں 6549 چراغ روشن کیے جاتے تھے۔ ٹنل کی تعمیر میں ایک کروڑ، ستانوے لاکھ، چوبیس ہزار، چار سو، چھبیس اینٹیں استعمال کی گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب ٹنل پر پہاڑی کی دونوں جانب سے کام شروع کیا گیا، تو سروے کرنے والے انجینئر کا دعوا تھا کہ 3 سال، 4 ماہ اور 21 دن کے بعد دونوں اطراف کام کرنے والے مزدور ایک دوسرے سے مل جائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ آخر دن سروے میں بعض تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے دونوں اطراف میں کام کرنے والے مزدور ایک دوسرے سے نہ مل سکے اور انجینئر نے خود کُشی کرلی (واللہ اعلم) جب کہ دوسری بار سروے میں غلطی کو درست کیا گیا اور ٹنل مکمل کی گئی۔
سال 1890 اور 91ء کو علاقے میں ٹائیفائیڈ بخار پھیلنے کی وجہ سے چار ماہ میں 800 مزدور جاں بحق ہوئے۔ سرنگ کے درمیان ایک خود کار گھنٹی (Automatic Bell) نصب کی گئی، جیسے ہی گاڑی وہاں سے گزرتی، تو گھنٹی خود بخود بجنا شروع ہوجاتی جس سے ڈرائیور کو پتا چل جاتا کہ گاڑی ٹنل کے درمیان پہنچ چکی ہے۔ یہ گھنٹی آج تک کام کررہی ہے۔
مشہور ہے کہ سرنگ پر کام کرنے والے مزدروں کو خوش رکھنے کے لیے ہندوستان کی معروف رقاصہ ’’ شیلا‘‘ (Shela) کو لایا گیا، جو راتوں کو رقص و سرور کی محفلیں جمایا کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ شیلا ‘‘ جسے انگریز سرکار یہاں لائے تھے، کی وجہ سے یہاں کا نام ’’شیلا باغ‘‘ پڑگیا۔
کوئٹہ سے 33 کلومیٹر کے فاصلے پر بوستان، 82 کلو میٹر پر گلستان، 96 کلومیٹر پر قلعہ عبداللہ، 112 کلومیٹر پر شیلا باغ اور سرنگ کی دوسری جانب کوئٹہ سے 123 کلو میٹر پر سنزالہ اور 142 کلو میٹر کے فاصلے پر پاکستان کا آخری شہر چمن، بارڈر پر واقع ہے۔
خوجک یا کو جک دنیا کی چوتھی لمبی سرنگ ہے۔ بعض علاقائی ناموں سے آپ نے یہ اندازا لگایا ہوگا کہ یہاں پر پھول کھلتے ہوں گے، قلعہ ہوگا، باغ اور چمن ہوگا…… لیکن ان علاقوں میں اس قسم کو کوئی چیز آپ کو نہیں ملے گی۔ البتہ قندہار سے میوے ضرور آتے ہیں۔
مرمت کا کام کرتے وقت سرنگ میں روشنی پہنچانے کے لیے روشنی منعکس کرنے والے آئینے (Concave Mirrors) استعمال کیے جاتے تھے۔ 89 سال گزرنے کے باوجود آج بھی اُن آئینوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مَیں 1980ء میں چمن شہر گیا ہوا تھا۔ ریلوے لائن میں چڑھائی زیادہ ہونے کی وجہ سے اُس وقت شیلا باغ سٹیشن سے سنزالہ سٹیشن تک HG/S-2-8-0 قسم کے بھاپ سے چلنے والے انجن (دو گاڑی کے آگے اور دو پیچھے) استعمال کیے جاتے تھے۔ 1927ء کو افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان سات ماہ کے سرکاری دورے پر اسی ریلوے لائن کے ذریعے ہندوستان آئے۔ امان اللہ خان کو لانے کے لیے انگریز سرکار نے اُنھیں خصوصی ریل گاڑی فراہم کی تھی۔
حکومتِ پاکستان نے اپنے پانچ روپے کے نوٹ پر سرنگ میں داخل ہونے والی جگہ کا عکس جاری کیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔