کیا ملکی مسائل کا حل ’’چھڑی‘‘ ہے؟ اس کا جواب سب کو معلوم ہے۔
دراصل کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چوں کہ سیاست دان سارے کے سارے چور ہیں اور اُنھوں نے ہی مختلف مافیاؤں کو پالا ہوا ہے، اس لیے ’’چھڑی‘‘ کے بغیر کوئی چارا نہیں۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
مخالفین کا کہنا مگر یہ ہے کہ ایوب خان سے لے کر مشرف تک ’’چھڑی‘‘ کھلے عام بروئے کار لائی گئی تھی، لیکن ملکی مسائل میں اضافہ ہوا تھا، کمی نہیں آئی تھی۔
مشرف کے بعد آج تک مبینہ طور پر ’’چھڑی والے‘‘ چھڑی گھما کر کام کروا رہے ہیں…… لیکن کیا مسائل حل ہوئے ہیں؟
حالیہ سبک دوش چھڑی والے کے بارے میں اَب کیا کیا باتیں ہورہی ہیں، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں……! بلکہ کئی ایک صحافی اور سیاست دان کئی بار کَہ چکے ہیں کہ موصوف نے مدتِ ملازمت میں دوسری بار توسیع کے لیے وہ کھیل کھیلا جس میں اَب ہار جیت کا فیصلہ تو ہو نہیں رہا، البتہ ایک افراتفری والی کیفیت ضرور تشکیل پاگئی ہے۔
موجودہ صاحب نے بھی حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے چھڑی گھمائی اور یک دم ڈالر اور سونے کی قدر میں اچھی خاصی کمی ہوئی…… لیکن سوال یہ ہے کہ ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں کمی سے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں بھی کمی آئی، کیا عوام کو کوئی ریلیف بھی ملا، کیا تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا؟
اب تو حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ مالی معاملات پر نظر رکھنے والے ایک کہنہ مشق صحافی نے کل ہی خبر دی ہے کہ ’’حکومت کے پاس تیل خریدنے کے لیے مطلوبہ ڈالر موجود نہیں۔ اس لیے ایک بین الاقوامی مالیاتی بینک سے دس فی صد سود پر ڈالر لینے کی باتیں زیرِ گردش ہیں۔‘‘
ملکی میڈیا پر بار بار بتایا جا رہا ہے کہ انسدادِ اسمگلنگ کارروائیوں میں ’’اتنے ڈالر‘‘ برآمد کیے گئے ہیں…… لیکن کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ مذکورہ ڈالر گئے کہاں……!
اب چھڑی گھومے یا نہ گھومے، مگر یہ بات تو ثابت ہوچکی کہ زور زبردستی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستانی مسائل صرف ڈنڈے کے زور پر حل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے یہ ایک مربوط لائحۂ عمل درکار ہوگا، جسے طے کرنے میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔ پھر پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ طے شدہ لائحۂ عمل کا نفاذ ہو، لیکن پھر بھی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے جمہوریت کا تسلسل ناگزیز ہے۔ تاکہ جمہوری چھلنی سے تمام ناکام اور مبینہ چور سیاست دانوں کا راستہ ہمیشہ کے لیے عوامی رائے کے ذریعے روکا جاسکے۔ جب تک یہ کام نہیں ہوتا، ہم خوشی فہمی میں مبتلا تو رہ سکتے ہیں، لیکن حقیقی خوشی اور ریلیف نہیں پاسکتے۔
بحیثیتِ ریاست ہم ’’حالتِ انکار‘‘ میں جی رہے ہیں۔ فرسودہ تصورات کے ساتھ خیالی عظمت کی داستانیں سنا کر اور قوم کو تھپکا کر وقت گزرانا چاہتے ہیں، تو یہ الگ بات ہے، وگرنہ حقائق کا سامنا کیے بغیر معاملات کا سدھرنا دیوانے کا خواب ہی ہے۔
بھارت کے ساتھ ہمارا تعلق کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سرحد بند ہے اور ہر قسم کی تجارت رُکی ہوئی ہے۔ ایران سے تیل سمیت دیگر اشیا کی اسمگلنگ بدستور جاری ہے۔ جس سے کچھ لوگوں یا اداروں کی جیبیں تو بھر رہی ہیں، مگر ملک کا نقصان ہورہا ہے۔
اس طرح افغانستان کے ساتھ ہمارا تعلق ٹھیک ہونے کی بجائے روز بہ روز بگڑتا جا رہا ہے۔ طورخم گیٹ کو 9 دن بعد کھولا گیا، مگر اِن 9 دنوں میں دونوں طرف نفرتوں میں بے تحاشا اضافہ ہی ہوا۔
اب رہی بات چین کی، تو وہ کچھ کچھ پس منظر میں بیٹھا تو دکھائی دے رہا ہے، کیوں کہ وہ بھی حیران و پریشاں ہے کہ اس ملک میں کس سے بات کی جائے، کس کے پاس اصل اختیار ہے؟
اب دیکھیں ناں کہ اس ملک میں تمام مسائل کا محور 9 مئی کو قرار دیا گیا ہے۔ حالاں کہ صرف 9 مئی کے بدنما واقعات پر تمام تر توجہ مرکوز کرنا حقیقی مسائل سے انکار یا فرار ہی ہے۔ اب کوئی باہر سے آکے ہمارے مسائل حل کرنے سے تو رہا۔ ہمیں سب سے پہلے ’’حالتِ انکار‘‘ سے نکلنا ہوگا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ قومی بیماری کا علاج صرف چھڑی گھمانے سے ممکن نہیں، بلکہ اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکے ریاستی، حکومتی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے راہ ہم وار کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ بدترین مریض وہ ہے، جو یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہو کہ میں بیمار ہوں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔