پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنے کا رواج بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو شہید نے 1970ء میں پانچ اور محترمہ بینظیربھٹو شہید نے 1990ء میں دو حلقوں سے انتخاب لڑا تھا۔ اس طرح نوازشریف، عمران خان، محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی خان، قاضی حسین احمد (مرحوم)، مو لانا فضل الرحمان اور امیر مقام بھی ایک سے زیادہ نشستوں پر مختلف انتخابات میں خود کو آزماتے رہے ہیں۔ یہ رواج ملک کی سیاست پر مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے مثبت پہلو میں ایک یہ بھی ہے کہ اس سے وفاقیت کو تقویت ملتی ہے۔ پارٹیاں اور ان کے رہنما اس بات کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ الیکشن لڑنے والا لیڈر سارے ملک میں یکساں طور پر مقبول ہے اور اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنی پارٹی کی قوت کو قومی یا صوبائی اسمبلی میں بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ منفی پہلو اس کا یہ ہے کہ بڑے لیڈر اکثر اپنے آبائی حلقہ کو رہنے دیتے ہیں اور باقی سے استعفا دے دیتے ہیں۔ چھوڑنے والے حلقے میں چند مہینوں میں دو دفعہ انتخابات کرانے کی وجہ سے معیشت اور عام کاروبار بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
اکثر یہ رہنما صوبوں کے دارالحکومتوں یا اس کے دوسرے بڑے شہر کا انتخاب کرتے ہیں مثلاً ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ڈیرہ اسماعیل خان جب کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پشاور سے الیکشن لڑا تھا لیکن بلاول بھٹو زرداری کا دورافتادہ اور پہاڑی علاقے کی طرف رُخ کرنے سے نہ صرف ایک نئی روایت کی بنیاد پڑی بلکہ یوں انہوں نے یہاں کی مقامی سیاست اور لیڈرشپ پرکئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ضلع ملاکنڈ میں پیپلز پارٹی کے دو رہنما سیاسی طور پر اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ ان میں ایک پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر ہمایون خان ہیں جب کہ دوسرے سیاست دان لعل خان ہیں۔ دونوں پارٹی کے اندر خاصی جانی پہچانی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ان کے آپس میں تعلقات زیادہ خوش گوار نہیں ہیں۔ اس لیے ملاکنڈ کے سیاسی حلقوں میں خیال کیا جا رہا ہے کہ اس فیصلہ سے پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر ہمایون خان نے پی پی کے اندر اپنے پرانے مخالف لعل خان کو ہمیشہ کے لیے لوکل پالیٹکس سے آؤٹ کیا لیکن اس تھیوری نے اس وقت دَم توڑ دیا جب لعل خان اپنے سپورٹرز کے ہمراہ بلاول کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے وقت الیکشن کمیشن کے مقامی دفتر پہنچ گئے۔ انہوں نے صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کے دوران میں اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم بلاول کو کامیاب کرانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر ہمایون خان کی شہ پر لعل خان کی سیٹ پر اگرچہ بلاول بھٹو کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرا دیے گئے لیکن اس کے باوجود لعل خان پی پی سے کہیں نہیں جا رہے ہیں۔ ان کے چالیس سالہ سیاسی کیریئر میں کئی بار ان کے ساتھ یہ کھیل کھیلا گیا لیکن انہوں نے ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کرکے پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے ساتھ بے وفائی نہیں کی۔
لعل خان کی بلاول کے پیپرز داخل کراتے وقت موجودگی کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ اس فیصلے سے سو فیصد خوش ہیں۔ انہوں نے اس فیصلے پر اپنی ناراضی کا اظہار اپنے مخالفین کے لیے توہین آمیز الفاط استعمال کرکے کیا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلہ ملاکنڈ میں الیکشن کے نتائج پر منفی طور پر ضرور اثر انداز ہوگا۔ کیوں کہ سازش پر مبنی فیصلے کبھی سود مند نہیں ہوتے۔

ہوسکتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں پختونخوا کے لیے این ایف سی ایوارڈ میں کوٹا بڑھانے اور پشتونوں کو شناخت دینے کے وعدے بلاول کے الیکشن پر مثبت اثرات مرتب کریں۔ (Photo: Business Recorder)

پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ترقی کے مطابق اس وقت وطن عزیز میں چونسٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر والے افراد یعنی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور پی ٹی آئی کے 80 فی صد سپورٹروں کا تعلق نوجوان طبقہ سے ہے۔ اس حقیقت کا ادراک سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ہر شخص کو ہو چکا ہے کہ نوجوان طبقہ جس سیاسی جماعت کے ساتھ ہوگا، اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ چوں کہ پی پی کے صوبائی صدر 2013ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار سے بری طرح ہار گیا تھا اور وہ اس حقیقت کو جان چکا ہے کہ پی ٹی آئی کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار اس علاقے کے نوجوانوں نے ادا کیا تھا، تو ہمایون خان نے اس سوچ کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کو این اے 8 کے معرکہ کے لیے راضی کیا ہے کہ بلاول نوجوان ہونے کے ناطے نوجوانوں کی حمایت حاصل کرکے جیت جائیں گے اور اس طرح خود ان کے جیتنے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے چند دن پہلے صحا فیوں سے غیر رسمی بات چیت کے دوران یہ کہتے ہوئے کیا کہ بلاول بھٹو نوجوان اور با صلاحیت ہونے کی وجہ سے مخالف امیدواروں کی ضمانتیں ضبط کرائیں گے۔
بلاول زرداری کے ملاکنڈ سے الیکشن لڑنے کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بلاول شہدا کے وارث ہونے کے ناتے جیالوں کو گرمائیں گے اور انتخابی مہم کے آخر تک اپنے ووٹروں کے جذبات کو ابھارے رکھیں گے لیکن جہاں تک نوجوانوں کو پیپلز پارٹی کی طرف راغب کرنے کا تعلق ہے، تو غیر جانب دار رائے یہ ہے کہ نوجوان طبقہ اب بھی عمران خان کو مسیحا سمجھتا ہے اور پی ٹی آئی کے لیے ان کی حمایت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں پختونخوا کے لیے این ایف سی ایوارڈ میں کوٹا بڑھانے اور پشتونوں کو شناخت دینے کے وعدے بلاول کے الیکشن پر مثبت اثرات مرتب کریں، لیکن اس کے برعکس یہ امکان بھی موجود ہے کہ صدر زرداری کے راؤ انوار کے لیے ادا کیے گئے تعریفی کلمات کی وجہ سے اس علاقے کے پختون بلاول کو ووٹ نہ دیں۔ کیوں کہ پشتون تحفظ موومنٹ نے موجودہ شکل نقیب اللہ محسود کے راؤ انوار کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے بعد اختیار کی تھی۔
پختونخوا سے پی پی کی ٹاپ لیڈر شپ کی الیکشن لڑنے کی تاریخ کچھ زیادہ شان دار نہیں ہے۔ کیوں کہ 1970ء کے انتخابات میں جناب ذوالفقارعلی بھٹو مولانا مفتی محمود سے اور 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو غلام احمد بلور سے ہار گئی تھیں۔ اس لیے اگر بلاول بھی اپنے بزرگوں کی طرح شکست سے دوچار ہوگئے، تو کے پی میں پی پی پی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
ملاکنڈ کے ہمسایہ ضلعوں سوات، دیر، باجوڑ اور مہمند میں جو طالبانی شورش پیدا ہوئی تھی، وہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کی پیداوار تھی۔ اس مائنڈ سیٹ نے تقریبا آدھ درجن بھٹوؤں کو مروایا ہے۔ پچھلے ہفتے سلیم صافی نے اپنے ایک کالم میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ایک ہمسایہ ملک افغانستان میں داعش اور طالبان الیکشن کے دوران میں پاکستان میں گڑبڑ پھیلانے کے لیے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انتخابات کے دوران میں طالبان مولوی فضل اللہ کی موت کا بدلہ لینے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ اس طرح کے واقعات خاص پلاننگ کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں افغانستان کے قریب واقع ضلع ملاکنڈ میں بلاول کا آنا اور الیکشن کے لیے جلسہ کرنا بہت خطرناک ہوگا۔ اس حوالے سے خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے میری ناقص رائے میں پیپلز پارٹی کا بلاول زرداری کو ملاکنڈ سے الیکشن لڑوانے کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔