اس سے پہلے کہ ایم کیو ایم بارے گزارشات کی جائیں، ایک مثال پر غور کریں تمام پاکستان کے عوام خاص کر سیاسی ایلیٹ اور طاقت کے پاور بیس۔
یہ اُس وقت کی بات ہے کہ جب چند سال قبل پاکستان کرکٹ ٹیم دورۂ برطانیہ پر تھی۔ اچانک ایک دن بھونچال آگیا اور کرکٹ کی تاریخ کا ایک بڑا میچ فکسنگ سیکنڈل ایک معروف برطانیوی جریدے میں شائع ہوا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے چند اہم ترین کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہیں۔ سلمان خان، محمد آصف اور اُبھرتا ہوا ستارہ محمد عامر…… کہ جس کی سزا پر مارشل بچوں کی طرح رویا تھا کہ کرکٹ نے ایک عظیم کرکٹر ضائع کردیا۔ بہرحال تب روز اُس پر میڈیا کی سٹوری ہوتی۔ بڑے بڑے اینکر اُس پر پروگرام کرتے اور اسی سلسلے میں، مَیں نے ایک پروگرام دیکھا جہاں سابقہ ٹسٹ کرکٹر اور حال کے معروف تجزیہ نگار سکندر بخت کَہ رہے تھے کہ دراصل ہمارے کھلاڑی چوں کہ بہت نچلے طبقے سے ہوتے ہیں اور جب وہ ایک دم سٹار ڈم کا شکار ہوتے ہیں، تو نفسیاتی طور پر شاید کچھ دوسری برائیوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کا بہتر حل یہ ہے کہ آپ ان کی گرومنگ کریں اور ان کو بتائیں کہ یہ ایک دو دن کی بات نہیں، بلکہ آپ نے یہاں سالہا سال رہنا ہے۔ اس لیے کچھ چیزوں میں احتیاط کرنا بہت ضروری ہے۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
مجھے سکندر بخت کی یہ باتیں معلوم نہیں کیوں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے حوالے سے بھی اسی نسبت سے محسوس ہوئیں۔ کیوں کہ ہمارا سیاسی نظام ہی ایسا ہے کہ اول تو یہاں پر کسی مڈل کلاس کی گنجایش نہیں اور اگر کوئی ایک آدھ اس نظام کے باجود اوپر آجائے، تو پھر یا تو وہ ناکام ہو جاتا ہے، اور یا پھر اُسی ایلیٹ کا حصہ بن جاتا ہے، اور اِس کی دو واضح مثالیں دو ’’شیخ رشیدوں‘‘ کی ہے۔ ایک شیخ رشید بلکہ اصل شیخ رشید لاہور کا تھا اور ایک رشید بٹ جو بعد میں شیخ رشید بن گیا راولپنڈی کا۔ لاہور والا چوں کہ نظریاتی جد و جہد سے آیا تھا اور اسی وجہ سے نظریات کا اسیر رہا اور ناکام ہوگیا، جب کہ پنڈی والے شیخ صاحب چوں کہ نظریاتی نہیں تھے، بلکہ سیاست کو ایک پروفیشن کے طور پر اپنا کر آئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ موقع پرستی سے فائدہ اُٹھا کر کامیاب بھی ہوئے اور ایلیٹ بھی بن گئے۔ روز بہ روز سیاست بھی مضبوط کرتے رہے، اور دولت میں بھی اضافہ کرتے رہے۔ آج لاہور والا دانش ور شیخ رشید گم نام ہے، جب کہ پنڈی والا شیخ رشید مرکزِ نگاہ۔
اسی طرح اگر ہم جماعتوں کی ہیئتِ ترکیبی دیکھیں، تو پیپلز پارٹی بے شک بھٹو نے نظریاتی و انقلابی بنائی، لیکن وقت کے ساتھ اس پر جاگیردار مسلط ہوئے۔ ن لیگ تو بنی ہی غاصب سیٹھوں کے تحفظ واسطے تھی، جب کہ تحریکِ انصاف کے ساتھ پی پی والا معاملہ ہوا۔ فرق بس اتنا تھا کہ پی پی نے یہاں پہنچتے پہنچتے قریب چوتھائی صدی سے زیادہ وقت لیا، لیکن تحریکِ انصاف بس ایک سال میں نظریاتی کارکنوں سے سیاسی مداریوں کی پناہ گاہ بن گئی۔ جماعت اسلامی بہرحال ایک مذہبی ذہن کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ چند مذہبی دماغ ہیں۔ وہ بھی ایک خاص فرقہ یا نظریہ کے پیروکار ہی ہیں، لیکن اس نظام میں اصل اور حقیقی عوامی اُٹھان ایم کیو ایم کی تھی، جو شاید سٹارڈم کا شکار ہوگئی۔ اُن کو سمجھانے کے بجائے اُن کو دبانے پر توجہ زیادہ رہی۔ تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے، تو ایم کیو ایم ایک خاص ماحول کی پیداوار تھی، جو لوگ 60ء، 70ء کی دہائی میں کراچی رہے، وہ جانتے ہیں کہ اس دوران میں اُردو بولنے والوں کے ساتھ بہت زیادتی ہوتی تھی۔ انڈسٹری پنجابیوں کی، ٹرانسپورٹ سمیت تجارت پشتونوں کے پاس، جب کہ اُردو بولنے والے کہ جن کو عمومی طور پر مہاجر کہا جاتا ہے اور جو پاکستان بنانے والوں کی اولادیں تھے، کو حکومتی و عوامی سطح پر کم تر سمجھا جاتا تھا۔ اُن پر ہر طرح کا ظلم کیا جاتا تھا۔ خاص کر ممتاز بھٹو صاحب کے دور میں باقاعدہ سیاسی حکمت عملی سے سندھی مہاجر اختلاف پیدا کیے گئے۔ اب جس طرح ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے، اس کا بھی ری ایکشن ہوا۔ وگرنہ پہلے تو کراچی کی اُردو سپیکنگ آبادی سیاست سے بے تعلق تھی۔ اُن کا عمومی ووٹ مذہبی جماعتوں کو جاتا تھا۔ تبھی کراچی اور حیدر آباد سے جماعت اسلامی اور مولانا شاہ احمد نورانی چند سیٹیں لے کر ملک کی سیاست میں زلزلہ لاتے رہتے تھے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
عوامی نیشنل پارٹی تاریخ کے آئینہ میں 
عبد الصمد خان اچکزئی شہید اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی تاریخ 
جماعت اسلامی تاریخ کے آئینہ میں 
پیپلز پارٹی کی تجدید وقت کی ضرورت  
مسلم لیگ نواز (اک جائزہ)  
پاکستان تحریکِ انصاف کا وائٹ پیپر
ایک واقعہ ہوا کہ مس زیدی نامی کالج کی بچی کو ایک پختون ڈرائیور نے کچل دیا، جس سے لواحقین اور ڈرائیور میں تلخی شروع ہوئی، جو آہستہ آہستہ مالکان ٹرانسپورٹ پھر ٹراسپورٹرز کی یونین تک گئی۔ دوسری بات، عوام خاص کر مہاجر قوم ایک طرف کھڑی ہوگئی اور معاملہ لانڈھی کورنگی برنس روڈ سے ہوتا ہوا شیر شاہ اور لیاری تک آگیا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا، جس کی وجہ سے ’’مہاجر سٹوڈٹنس فیڈریشن‘‘ جو جمعیت اور پیپلز سٹوڈنس فیڈریشن میں بالکل گم نام تھی اور جس کے محض چند طلبہ ہی حمایتی تھے، ایک دم سے ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ کا روپ دھار گئی۔ اب بے شک اس میں ضیا آمریت کا تھوڑا بہت حصہ ہوگا، لیکن یہ تحریک بہت نیچے سے عوام میں اُٹھی اور کراچی اور حیدر آباد کے عوام میں بہت جلد مقبول ہوئی۔ اس نے کراچی کی میئر شپ پر قبضہ کرلیا اور بعد میں پرانی سیاسی اجارہ دار جماعتوں یعنی جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان کے علاوہ تب کا اسٹیبلشمنٹ کا تیار کردہ اسلامی جمہوری اتحاد ملیا میٹ ہوگیا۔ حتی کے بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پی پی پہلا الیکشن اس وقت کی مقبول ترین لیڈر بے نظیر بھٹو کی قیادت میں لڑ رہی تھی۔ ایم کیو ایم نے اس کو بھی روند ڈالا اور کراچی اور حیدر آباد سے ایک معقول پارلیمانی طاقت لے کر قومی و صوبائی اسمبلی میں آگئی۔ آج 2023ء میں بھی ایم کیو ایم بہرحال ایک سیاسی طاقت کے طور پر موجود ہے، اور غالب امکان یہی ہے کہ مستقبلِ قریب میں جو بھی حکومت بنے گی، اُس میں ایم کیو ایم کی اہمیت قائم رہے گی۔ قریب 40 سال کا یہ سفر ایم کیو ایم کے عروج و زوال سے بھر پور رہا۔ اس دوران میں مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔ اس پر دہشت گردی اور بھتا خوری کے الزام بھی لگے، لیکن بحیثیتِ مجموعی یہ ایک تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی جماعت تھی اور شاید اب بھی ہے۔ چوں کہ اس میں روایتی سیٹھ یا جاگیر دار نہ تھے، اس وجہ سے اس کی غلطیوں کی اصلاح نہ کی گئی، بلکہ یا تو اس کو بہت زیادہ بلکہ ضرورت سے زیادہ لاڈلا بنا کر رکھا گیا اور یا پھر اس کے ساتھ دشمن سے بدتر سلوک ہوا۔
یہاں ہم سکندر بخت کی بات کریں گے کہ طاقت ور حلقوں کو یہ غور کرنا چاہیے تھا کہ یہ غیر سیاسی خاندانوں کے مڈل کلاس کے نوجوان ہیں کہ جنھوں نے وفاقی وزیر، گورنر، ایم این اے تو کیا شاید کبھی کسی یونین کونسل کے ممبر بننے کا بھی خواب نہ دیکھا۔ سو جب ایک دم عوامی حمایت ملی اور اعلا ایوانوں تک رسائی ہوئی، تو پھر ان میں کچھ برائیوں کا آنا فطری تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے مقتدر حلقے ان بچوں کو آرام سے سمجھاتے اور ان کو نسبتاً پُرامن اور فلاح کی سیاست جو جذباتی نہیں سنجیدہ تھی، کی طرف لاتے۔ لیکن افسوس اُنھوں نے اُن سے خطرہ محسوس کیا کہ جس طرح کراچی سے سیٹھ کی اور حیدرآباد سے کمیشنر کی بدمعاشی ختم ہوئی، کہیں یہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ہجوم اندرونِ سندھ وڈیروں، بلوچستان کے سرداروں، پختون خوا کے خانوں، پنجاب کے جاگیرداروں، کشمیر کے زمین داروں کی کرسیوں اور طاقتوں کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ سو پہلے تو اُن کو اندرونِ سندھ اور پنجاب گھسنے نہ دیا گیا، اور اگر کبھی ایسی کوشش ہوئی بھی، تو اس کو انتظامی طاقت سے ناکام بنا دیا گیا۔ حتی کہ کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کی پارلیمانی طاقت کو بلیک میل کرکے ان سے اول مقاصد حاصل کیے گئے اور ایک وقت آیا کہ بانی متحدہ کو بالکل سائیڈ لائین کر دیا گیا۔ بہرحال اب جو قیادت ہے، ایم کیو ایم کی اس میں مصطفی کمال، فاروق ستار اور اُن کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نہایت ہی مہذب پُروقار اور دلیر لوگ ہیں، جنھوں نے کراچی میں رہ کر الطاف حسین کی مخالفت کی، جنھوں نے قومی سیاست میں نسبتاً بہتر رویہ اختیار کیا۔ ویسے بھی یہ لوگ خاندانی پس منظر میں مڈل کلاس کے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں اور بہت حد تک اَب سیاست میں تجربہ کار بن چکے ہیں۔ اس لیے ان کا حق ہے کہ یہ کراچی اور حیدر آباد سے باہر نکل کر دوسرے صوبوں کے عوام سے رابطہ کریں، اُن تک اپنا پیغام، سیاسی شعور اور عوامی منشور پہنچائیں۔ باقی آخر فیصلہ تو بے شک عوام نے کرنا ہے۔ اگر عوام ان کو قبول کرتی ہے، تو ظاہر ہے وہ کراچی سے اُردو بولنے والے تو لاکر بہاول پور، کوٹلی، راولپنڈی، پشاور، لاڑکانہ، لورا لائی سے تو امیدوار نہیں بنائیں گے بلکہ مقامی نوجوان ہی ہوں گے جو اس سے وابستہ ہوں گے، بالکل دوسری عمومی جماعتوں کی طرح۔ مثلاً تحریکِ انصاف کا سربراہ میانوالی کا خان ہے۔ ن لیگ کا سربراہ لاہور کا کشمیری ہے۔ پیپلز پارٹی کا سربراہ سندھ کا بلوچ ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کا سربراہ ایک کراچی کا مہاجر ہوجائے گا، بلکہ بہت حد تک ممکن ہے کہ یہ سربراہ مستقبلِ قریب میں کوئی گجرات کا جٹ، دیر کا یوسف زئی، مظفر آباد کا سدھن، سانگھڑ کا سید یا خاران کا کھیتران ہوجائے۔ کیوں کہ متحدہ قومی موومنٹ اپنی ہیئتِ ترکیبی میں ہی ایسی ہے کہ یہاں خاندانی سیاست کا وجود ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر آج الطاف حسین کی بیٹی خالد مقبول صدیقی کے بیٹے یا فاروق ستار اور مصطفی کمال کی اولاد تو کیا، بہن بھائیوں حتی کہ کزن تک کو کوئی نہیں جانتا۔ سو ہم بحیثیتِ ایک عام پاکستانی مضبوط ایوانوں اور بڑے سیاست دانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان بنانے والوں کی اولاد سے خوف زدہ مت ہوں۔ ان کے خلاف ایک خاص قسم کا پروپیگنڈا نہ کیا جائے، بلکہ ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ ان کو پورے ملک میں فری ہینڈ اور اوپن گراونڈ دیا جائے۔ باقی نتائج کو ان کی محنت نیت اور قسمت پر چھوڑ دیا جائے۔اگر لیاقت علی خان وزیرِ اعظم کی کرسی، پرویز مشرف فوج کے سربراہ اور آمر کے طور پر، عارف علوی صدر اور رضا ربانی چیئرمین سینٹ کسی اور گروپ کی جانب سے آکر محب الوطن ہیں، تو ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے آنے والا کوئی مہاجر کیسے غدار ہو سکتا ہے؟ اس سوال کو اپنی فکری دانش کا حصہ ضرور بنائیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔