وزیرِ اعظم شہباز شریف نے نیوز چینل ’’آج‘‘ کے اینکر شیرازی کے پروگرام ’’فیصلہ آپ کا‘‘ میں انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’قومی انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔‘‘
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
شہباز شریف سے پوچھے گئے اس سوال پر کہ ’’کیا نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے کی کی وجہ سے انتخابات تاخیر یا التوا کا شکار نہیں ہوں گے؟‘‘ وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ تو الیکشن کمیشنر آف پاکستان کرے گا۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے کے لیے نئی حلقہ بندیاں کرانا لازم ہوگا، جو کہ چار، پانچ ماہ کا پراسس ہے۔
وزیرِ اعظم کے اس اعلان سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد 60 دنوں میں انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں اور نہ 90 دنوں میں انتخابات ہونے کی امید ہی کی جاسکتی ہے۔
نئی مردم شماری پر صوبوں کے تحفظات ہیں اور وہ 2023 ء کو ہونے والے ڈیجیٹل مردم شماری سے مطمئن نہیں۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ پہلے درست مردم شماری کریں اور پھر اس کی بنیاد پر انتخابات کرائیں۔
پاکستان محکمۂ شماریات (Pakistan Bureau of Statistics) کی طرف سے مردم شماری مکمل ہوچکی ہے اور اب اُس کو "Council of Common Interest” یعنی مشترکہ مفادات کونسل میں منظوری کے لیے پیش کرنا ہے، جس کا عندیہ وزیرِ اعظم شہبار شریف اور وفاقی وزیرِ قانون اعظم تارڑ دے چکے ہیں۔
اگر مشترکہ مفادات کونسل نئی مردم شماری کی منظوری دے دیتی ہے، تو پھر قومی انتخابات التوا کا شکار ہوں گے۔
اگر واقعی ایسا ہوتا ہے، تو پھر انتخابات کا یہ التوا ایک، دو ماہ کے لیے نہیں بلکہ لمبے عرصے کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کے التوا کے پیچھے کون ہے اور اس میں کس کس کا ہاتھ ہے؟ ایک شاعر کے نزدیک یہ ایک ایسا سوال ہے کہ
اس شہر کے انداز عجب دیکھے ہیں یارو!
کونگوں سے کہا جاتا ہے بہروں کو پکارو!
مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کام کٹھ پتلی نچانے والوں کا ہے اور ناچنے والی کٹھ پتلیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اُنھیں نچانے والے کون ہیں اور اُن کے مقاصد کیا ہیں؟
ناچنے والی پتلیوں کو ذاتی مفادات کے لیے خوشی سے ناچنا پڑتا ہے اور اگر کسی کٹھ پتلی کو کھیل سے باہر کیا جاتا ہے، تو وہ نچانے والوں کے خلاف دبی زبان، اشاروں اور کنایوں میں بات کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ یہ امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ شاید اُنھیں آنے والے کسی کھیل میں دوبارہ شامل کیا جائے۔
کھیل سے باہر ہونے والی کٹھ پتلیوں کو ملک و ملت کی فکر نہیں ہوتی، بلکہ ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اس طرح نچانے والوں کو جب بھی اُن کی ضرورت پڑتی ہے، تویہ نہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ ناچنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ جب نچانے والوں کو علم ہوجاتا ہے کہ تماشائی خوش نہیں، تو وہ سارا ملبہ کٹھ پتلی کی غیر معیاری اداکاری پر ڈال دیتے ہیں۔
اس طرح اگر کھیل کو تماشائیوں نے پسند کیا، تو اس کا سہرا نچانے والے اپنے سر باندھ دیتے ہیں۔
کٹھ پتلیاں نچانے والے اور ناچنے والی کٹھ پتلیاں مشکل وقت آنے پر بیرونِ ملک جابستے ہیں۔ پاکستان میں پتلی تماشے کا یہ کھیل کئی عشروں سے جاری ہے۔
پتلی تماشا دکھانے والوں کے سربراہ نے ایک تقریب میں تسلیم بھی کیا کہ ریاست کا یہ اہم ادارہ پتلی تماشے میں شامل رہا اور آیندہ وہ مذکورہ تماشے میں شامل نہیں ہوں گے…… مگر اُن کے اس دعوے میں کوئی حقیت نہیں، بلکہ وہ آج بھی کٹھ پتلیوں کو اپنی مرضی سے نچانے پر تلے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ’’کو چیئرمین‘‘ اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے نچانے والوں کو دھمکی دی تھی کہ ہم آپ کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ آپ نے یہاں تین سال رہنا ہے اور ہم ہمیشہ رہیں گے۔ نچانے والوں کو بلیک میل کرنے کے لیے ’’میمو گیٹ سکینڈل‘‘ کا ڈراما رچایا گیا، مگر غلطی کا ادراک ہوتے ہی آصف علی زرداری نے سجدۂ سہو کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔
اس طرح سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے ’’ڈان لیکس‘‘ کے ذریعے ممبئی حملے اور کشمیر پر ہونے والے حملوں کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اپنے نچانے والوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور حملوں میں ملوث کرنے والوں کے خلاف پاکستان میں مقدمات درج کیے۔ نچانے والوں نے اُنھیں کھیل سے باہر کیا، تو رو رو کر میاں محمد نواز شریف لوگوں سے پوچھتے رہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘بیرونِ ملک جانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کے جلسے جلوسوں سے خطاب میں نچانے والوں کے نام لے لے کر الزامات لگائے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے جب نچانے والوں کے خلاف مزاحمت شروع کی، تو اُنھیں بھی کھیل سے باہر کیا گیا اور نئے کھیل کی بساط بچھائی دی۔
پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور جے یو آئی ذاتی مفادات اور اپنے خلاف قائم مقدمات کو ختم کرنے کے لیے ایک بار پھر دوسروں کی انگلیوں پر ناچنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ناچنے والی کٹھ پتلیوں اور نچانے والوں کو اب ڈر ہے کہ آنے والے قومی الیکشن میں عمران خان بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، تو عمران خان کا راستہ روکنے کے لیے ان کے خلاف 180 مقدما ت درج کیے گئے۔ وہ روز کسی نہ کسی مقدمے میں عدالتوں میں پیش ہورہے ہوتے ہیں۔
ناچنے اور نچانے والے جو کھیل کھیلنے جا رہے ہیں، ریاستِ پاکستان کے لیے ناتلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ناچنے اور نچانے والوں کو ملک کی خاطر یہ پتلی تماشا بند کردینا چاہیے، ورنہ ناچنے والے رہیں گے اور نہ نچانے والے۔
آج 5 اگست کو جب مَیں یہ سطور تحریر کررہا تھا، تو اسلام آباد کے سیشن جج دلاور نے چیئرمین عمران خان کو تین سال قید، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ سال کے لیے کسی بھی عہدے کے لیے نااہل ہونے کی سزا سنائی ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔