میڈیائی رپورٹس کے مطابق معزز منصفِ اعلا نے کہا ہے کہ ’’آٹھ فروری کو انتخابات پتھر پر لکیر ہیں!‘‘
اَب اس کے بعد ہم یہ تو نہیں کَہ سکتے کہ مذکورہ تاریخ کو انتخابات نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ توہینِ عدالت کی لٹکتی تلوار سے بھی بچنا ہے…… مگر حالات و واقعات اور قرائین و شواہد سب گواہ ہیں کہ معزز جج نے جس معاملے کو پتھر پر لکیر کہا ہے، اُسی پتھر میں پانی کے مسلسل گرتے دھارے نے ایک گھڑا سا بنا دیا ہے، جس میں ملک کا آئین اور جمہوریت دونوں گرسکتے ہیں۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
گذشتہ ہفتے سینیٹ میں 14 ارکان کی موجودگی میں ایک قرارداد پیش اور پاس کی گئی، جس میں انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ قرارداد عدالتی فیصلے سے زیادہ قوی نہیں اور اس کی حیثیت بھی فقط نمایشی ہی ہے…… کیوں کہ فرمایشی معاملات دراصل نمایشی ہی ہوتے ہیں، لیکن ما بعد علما کے ‘‘سیاسی سربراہ’’ نے مذکورہ قرارداد کو اپنی موقف کی جیت قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ حالات خراب ہیں اور انتخابات میں التوا کوئی گناہ نہیں۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مولانا محترم کا تازہ مطالبہ درحقیقت ’’اُن‘‘ کی آواز ہے…… جن کو تمام تر خفیہ رپورٹس کی بنیاد پر علم ہے کہ ذرا بھی صاف اور شفاف انتخابات ہوئے، تو غصے سے لب ریز عوام اور خاص کر نوجوانوں کا فیصلہ کچھ اور ہوگا۔
پرانے سیاسی کھلاڑیوں کو بھی اس حقیقت کا اندازہ ہے کہ زمینی حقائق میں سیاسی زمین اُن کے پاوں تلے کھسک رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا محترم نے اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار جنوبی صوبے میں افغانستان کی سرحد کے قریب علاقے سے بھی انتخابی میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیوں کہ موصوف کی آبائی علاقے میں شائد نوجوان نسل کی ترجیحات بدل چکی ہیں…… جب کہ مولانا کو ہر حال میں اسمبلی پہنچنا ہے، جس کے لیے جنوبی صوبہ بہترین انتخاب ہے۔ کیوں کہ یہ صوبہ ویسے بھی ’’اُن‘‘ کے لیے روزِ اول سے سیاسی اکھاڑا بنا ہوا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات کے لیے ضابطۂ اخلاق برائے قومی میڈیا  
انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے لیے ضابطۂ اخلاق  
1965 عیسوی کے صدارتی انتخابات 
انعقاد سے قبل ہی انتخابات متنازع ہوگئے 
وکلا تنظیمیں، الیکشن کمشنر اور عام انتخابات  
حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں……! لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ فی الحال کسی بھی پارٹی کی انتخابی مہم میں وہ چمک نظر نہیں آرہی، جو انتخابی معرکوں کا خاصا ہوا کرتی ہے۔
کئی ایک آزمودہ امیدواروں سے جب جب بات ہوئی ہے، تو اُن کے جواب میں حیرانی اور افسوس کا غلبہ پایا ہے۔ کیوں کہ جس انداز میں الیکشن کے لیے ایک ذمے دار ادارے نے بہ ظاہر یک طرفہ ماحول بنایا ہوا ہے، جس میں اکثر پارٹیوں کو حیرانی ہی ہونی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مقتدر حلقوں کے قریب موثر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک حکومتی اور ریاستی اداروں کے پاس انتخابات کے حوالے سے جو رپورٹس موجود ہیں، اُن کے نتائج کو مدِنظر رکھ اعلان شدہ تاریخ کو انتخابات کا ہونا یقینی نہیں۔ البتہ اگر آنے والے چند دنوں میں حالات بدل جاتے ہیں، یا بدل دیے جاتے ہیں، بالفاظِ دیگر جوڑ توڑ کا بازار گرم کرکے کاروبارِ سیاست کو کنٹرول کیا جاتا ہے، تو پھر کوئی شک نہیں کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔
ہاں! یہ بات تشویش ناک ضرور ہے کہ ایک صحافی نے اپنے ایکس (سابقہ نام ٹوئٹر) پر انکشاف کیا ہے کہ اُنھیں ایک سینیٹر نے بتایا ہے کہ ’’کچھ بڑا ایسا کیا جائے گا کہ انتخابات نہ ہوسکیں۔‘‘
اللہ نہ کرے کہ کچھ بُرا واقعہ ہوجائے، جس سے ملکی آئینی و جمہوری سفر کو بریک لگ جائے…… لیکن ایسا کرنے والوں کا ہاتھ کون روک سکتا ہے؟
اب آپ میڈیا پر توجہ دیں، تو معلوم ہوجائے گا کہ کورونا کو پھر سے ’’زندہ‘‘ کیا جا رہا ہے۔ کیا پتا کل کلاں اسی کورونا کو بہانا بنا کر انتخابی عمل کو ملتوی کیا جائے اور یہ ایک محفوظ بہانا بھی ہوگا، جس پر عدالت بھی مان جائے گی۔ یوں سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی۔
باالفرض یہ سب کچھ ہوجاتا ہے، تو بعد ازاں کیا ہوگا؟
اس حوالے سے لگتا تو یہی ہے کہ پالیسی سازوں کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں۔ البتہ حالیہ نگران حکومت یا اس جیسی کسی اور بے تکی مشق جاری رکھی جائے گی، جس میں ملک و قوم کا کسی بھی طور فائدہ نظر نہیں آرہا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔